ایران نے امریکا پر غیر قانونی جارحانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ امریکی حملے میں متعدد ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسند ہلاک ہوئے تھے۔
اشتہار
ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے جمعہ 26 فروری کو جو بیان جاری کیا گيا اس میں جمعرات 25 فروری کو شام میں ایرانی حمایت یافتہ جنگجؤں کے ٹھکانوں پر امریکی فضائی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’’غیر قانونی‘‘ قرار دیا گيا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے نے اپنے ایک بیان میں اسے،''شام کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے خلاف واضح ''جارحیت اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی بتایا۔‘‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فضائی حملوں سے جنگ زدہ ملک میں جہاں تنازعہ مزید گہرا ہوگا وہیں خطے میں عدم استحکام میں بھی اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ شام میں امریکا کے غیر قانونی فوجی اڈے ہیں جنہیں وہ دہشت گردوں کو تربیت دینے کے لیے استعمال کرتا ہے اور قدرتی وسائل پر گرفت حاصل کرنے کے لیے وہ ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
شام کی وزارت خارجہ نے بھی ان حملوں کو، ''امریکا کی بزدالانہ جارحیت‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف کے مطابق شام نے اسے نئی امریکی انتظامیہ کا 'غلط اشارہ بتایا۔
اشتہار
امریکا نے حملہ کیوں کیا؟
شام میں انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والی تنظیم 'سیرئین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ نے جمعے کے روز بتایا تھا کہ جمعرات کو امریکی حملے میں ہلاک ہونے افراد کی تعداد 22 تک پہنچ گئی ہے۔ ہلاکتوں میں اضافے کا امکان ہے کیونکہ حملے میں بعض جنگجو شدید زخمی ہوئے۔
اس تنظیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ حملے میں ایرانی حمایت یافتہ دو عراقی گروپوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ہی اس سمندری جہاز کو بھی نشانہ بنا یا گيا تھا جو عراق سے اسلحے کی ایک کھیپ لے کر شام جانے کی کوشش میں تھا۔
امریکا کا کہنا ہے کہ عراق میں امریکی فوجیوں اور اتحادیوں پر حالیہ راکٹ حملوں کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے صدر بائیڈن کے حکم پر یہ حملے کیے گئے تھے۔ پنٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ ان حملوں سے ایرانی حمایت یافتہ عراقی مسلح گروپوں بشمول کتائب حزب اللہ اور کتائب سید الشہدا کے زیر استعمال سرحدی کنٹرول پوائنٹ کو نشانہ بنایا گیا۔
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
عالمی امن پر تحقیق کرنے والے ادارے سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں عسکری اخراجات میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ اضافہ کرنے والے ممالک میں بھارت، چین، امریکا، روس اور سعودی عرب شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Talbot
عمان
مجموعی قومی پیداوار کا سب سے بڑا حصہ عسکری معاملات پر خرچ کرنے کے اعتبار سے خلیجی ریاست عمان سرفہرست ہے۔ عمان نے گزشتہ برس 6.7 بلین امریکی ڈالر فوج پر خرچ کیے جو اس کی جی ڈی پی کا 8.8 فیصد بنتا ہے۔ مجموعی خرچے کے حوالے سے عمان دنیا میں 31ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سعودی عرب
سپری کے رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اپنی مجموعی قومی پیداوار کا آٹھ فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ سن 2019 میں سعودی عرب نے ملکی فوج اور دفاعی ساز و سامان پر 61.9 بلین امریکی ڈالر صرف کیے اور اس حوالے سے بھی وہ دنیا بھر میں پانچواں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر نے گزشتہ برس 10.30 بلین ڈالر فوج اور اسلحے پر خرچ کیے جو اس ملک کی جی ڈی پی کا چھ فیصد بنتا ہے۔ عسکری اخراجات کے حوالے سے الجزائر دنیا کا 23واں بڑا ملک بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
کویت
تیسرے نمبر پر کویت ہے جہاں عسکری اخراجات مجموعی قومی پیداوار کا 5.6 بنتے ہیں۔ کویت نے گزشتہ برس 7.7 بلین امریکی ڈالر اس ضمن میں خرچ کیے اور اس حوالے سے وہ دنیا میں میں 26ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/U.S. Marines
اسرائیل
اسرائیل کے گزشتہ برس کے عسکری اخراجات 20.5 بلین امریکی ڈالر کے مساوی تھے اور زیادہ رقم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں اسرائیل کا 15واں نمبر ہے۔ تاہم جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کا 5.3 فیصد فوج پر خرچ کر کے جی ڈی پی کے اعتبار سے اسرائیل پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AFP/H. Bader
آرمینیا
ترکی کے پڑوسی ملک آرمینیا کے عسکری اخراجات اس ملک کے جی ڈی پی کا 4.9 فیصد بنتے ہیں۔ تاہم اس ملک کا مجموعی عسکری خرچہ صرف 673 ملین ڈالر بنتا ہے۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
اردن
اردن اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 4.9 فیصد فوج اور عسکری ساز و سامان پر خرچ کر کے اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ اردن کے دفاع پر کیے جانے والے اخراجات گزشتہ برس دو بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی رقم خرچ کرنے کی فہرست میں اردن کا نمبر 57واں بنتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
لبنان
لبنان نے گزشتہ برس 2.5 بلین امریکی ڈالر عسکری اخراجات کیے جو اس ملک کے جی ڈی پی کے 4.20 فیصد کے برابر ہیں۔
تصویر: AP
آذربائیجان
آذربائیجان نے بھی 1.8 بلین ڈالر کے عسکری اخراجات کیے لیکن جی ڈی پی کم ہونے کے سبب یہ اخراجات مجموعی قومی پیداوار کے چار فیصد کے مساوی رہے۔
تصویر: REUTERS
پاکستان
سپری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گزشتہ برس اپنی مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد فوج اور عسکری معاملات پر خرچ کیا۔ سن 2019 کے دوران پاکستان نے 10.26 بلین امریکی ڈالر اس مد میں خرچ کیے یوں فوجی اخراجات کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا 24واں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
روس
روس کے فوجی اخراجات 65 بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی خرچے کے اعتبار سے وہ دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ تاہم یہ اخراجات روسی جی ڈی پی کے 3.9 فیصد کے مساوی ہیں اور اس اعتبار سے وہ گیارہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Pitalev
بھارت
بھارت عسکری اخراجات کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس بھارت کا فوجی خرچہ 71 بلین امریکی ڈالر کے برابر رہا تھا جو اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا 2.40 فیصد بنتا ہے۔ اس حوالے وہ دنیا میں 33ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
چین
چین دنیا میں فوجی اخراجات کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے اور گزشتہ برس بیجنگ حکومت نے اس ضمن میں 261 بلین ڈالر خرچ کیے۔ یہ رقم چین کی جی ڈی پی کا 1.90 فیصد بنتی ہے اور اس فہرست میں وہ دنیا میں 50ویں نمبر پر ہے۔
دنیا میں فوج پر سب سے زیادہ خرچہ امریکا کرتا ہے اور گزشتہ برس کے دوران بھی امریکا نے 732 بلین ڈالر اس مد میں خرچ کیے۔ سن 2018 میں امریکی عسکری اخراجات 682 بلین ڈالر رہے تھے۔ تاہم گزشتہ برس اخراجات میں اضافے کے باوجود یہ رقم امریکی مجموعی قومی پیداوار کا 3.40 فیصد بنتی ہے۔ اس حوالے سے امریکا دنیا میں 14ویں نمبر پر ہے۔
گزشتہ دنوں عراق میں امریکی اور اس کی اتحادی افواج کے ٹھکانوں پر تین راکٹ حملے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اربیل میں بھی ایک فوجی کمپلیکس کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں ایک شہری اور اتحادی فوج کے ساتھ کام کرنے والا ایک غیرملکی کانٹریکٹر ہلاک ہوگیا تھا جب کہ ایک امریکی فوجی متعدد دیگر امریکی کانٹریکٹر زخمی بھی ہوئے تھے۔
امریکا اور ایران کے درمیان تعلقات
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ایران اور امریکا کے تعلقات خراب ہونے شروع ہوئے تھے جو گزشتہ برس ایک امریکی حملے میں جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد کشیدگی کی حد تک پہنچ گئے۔ بائیڈن کے اقتدار سنھالنے کے بعد سے بھی تعلقات تقریبا اسی موڑ پر ہیں۔
ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے بھی امریکا کو الگ کر لیا تھا اور اس پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ حالانکہ صدر بائیڈن نے اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے مین دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے تاہم ایران کا اصرار اس بات پر ہے کہ چونکہ امریکا نے اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر الگ ہونے کا فیصلہ کیا تھا اس لیے اس پر بات چيت سے قبل اسے پہلے پابندیاں اٹھانے کی ضرورت ہے۔