امریکا نے ترکی کی طرف سے شام میں امریکی فوجی چوکیوں کی جگہوں کے انکشاف کو ایک ’پرخطر اقدام‘ قرار دیا ہے۔ نیٹو میں اپنے ایک قریبی اتحادی ملک کے طور پر امریکا نے اس بارے میں ترکی سے باقاعدہ شکایت بھی کی ہے۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے جمعرات بیس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا ہے کہ ترکی کی ایک سرکاری نیوز ایجنسی نے ابھی حال ہی میں خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں بظاہر امریکی فوجی چوکیوں کے مقامات کا جو انکشاف کر دیا تھا، اس نے مشرق وسطیٰ کے اس بحران زدہ ملک میں امریکی دستوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
روئٹرز کے مطابق ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے انادولو نے منگل اٹھارہ جولائی کے روز شمالی شام میں دس ایسے مقامات کی فہرست جاری کر دی تھی، جہاں امریکی فوجی تعینات ہیں۔ ان میں سے چند مقامات کے بارے میں تو اس ترک نیوز ایجنسی نے یہ تفصیلات بھی جاری کر دی تھیں کہ وہاں تعینات امریکی اور فرانسیسی فوجیوں کی تعداد کتنی ہے۔
حلب کو ’مکمل تباہی‘ سے بچانے کی کوشش
01:56
This browser does not support the video element.
اس بارے میں واشنگٹن میں پینٹاگون کے ایک ترجمان نے بدھ انیس جولائی کی رات کہا، ’’داعش یا آئی ایس کے خلاف بین الاقوامی عسکری اتحاد کے دستوں کے بارے میں حساس معلومات کا اس طرح جاری کیا نہ صرف ایک غیر ضروری خطرے کی وجہ بنا ہے بلکہ اس سے ممکنہ طور پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف عسکری کارروائیوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘
پینٹاگون کے ترجمان نے مزید کہا، ‘‘ہم ان معلومات کے ذرائع کی انفرادی طور پر تصدیق تو نہیں کر سکتے لیکن ہمیں اس بات پر گہری تشویش ہے کہ نیٹو میں ہمارے کسی قریبی اتحادی ملک کے حکام کی طرف سے دانستہ طور پر حساس معلومات کے اجراء کے ساتھ اتحادی فوجوں کو خطرے میں ڈال دیا جائے۔‘‘
پینٹاگون کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان معلومات کے منظر عام پر لائے جانے کے بعد امریکا نے ترک حکومت سے باقاعدہ احتجاج کرتے ہوئے اسے اپنی تشویش سے آگاہ بھی کر دیا ہے۔
نیٹو کے رکن دو قریبی اتحادی ملک ہونے کے باوجود شام کی خانہ جنگی کے باعث ترکی اور امریکا کے باہمی تعلقات میں گزشتہ کچھ عرصے میں کافی بے چینی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا نے شامی شہر رقہ سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے جہادیوں کو نکالنے کی کوششوں کے دوران کرد عسکریت پسندوں کی تنظیم وائی پی جی کے جنگجوؤں کو مسلح کیا اور انہیں تربیت بھی دی اور اس پر انقرہ حکومت اس لیے ناراض ہو گئی تھی کہ ترکی ان باغیوں کو اپنا ریاستی دشمن قرار دیتا ہے۔
یہ کرد باغی 1980 کے عشرے سے جنوب مشرقی ترکی میں اپنی مسلح بغاوت جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ اپنی ایک ایسی علیحدہ کرد ریاست کے قیام کے خواہش مند ہیں، جس میں ان کی خواہشات کے مطابق ترکی کے موجودہ ریاستی علاقے کا ایک حصہ بھی شامل ہونا چاہیے۔
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
جنگ سے پہلے حلب شمالی شام کا ایک بارونق اور ہنستا بستا شہر تھا، جو شام کا اقتصادی مرکز اور سیاحوں میں بے حد مقبول تھا۔ موازنہ دیکھیے کہ کھنڈر بن چکے مشرقی حلب کے کئی مقامات پہلے کیسے تھے اور اب کس حال میں ہیں۔
اموی جامع مسجد پہلے
سن 2010ء میں ابھی اُس باغیانہ انقلابی تحریک نے حلب کی جامع الاموی کے دروازوں پر دستک نہیں دی تھی، جو تب پوری عرب دُنیا میں بھڑک اٹھی تھی۔ یہ خوبصورت مسجد سن 715ء میں تعمیر کی گئی تھی اور یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
اموی جامع مسجد آج
سن 2013ء کی جھڑپوں کے نتیجے میں اس مسجد کو شدید نقصان پہنچا۔ چوبیس مارچ سن 2013ء کو اس مسجد کا گیارہویں صدری عیسوی میں تعمیر ہونے والا مینار منہدم ہو گیا۔ آج یہ مسجد ایک ویران کھنڈر کا منظر پیش کرتی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حمام النحاسین پہلے
حلب شہر کے قدیم حصے میں واقع اس حمام میں 2010ء کے موسمِ خزاں میں لوگ غسل کے بعد سکون کی چند گھڑیاں گزار رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
حمام النحاسین آج
چھ سال بعد اس حمام میں سکون اور آرام نام کو نہیں بلکہ یہاں بھی جنگ کے خوفناک اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قلعہ پہلے
حلب کا یہ قلعہ دنیا کے قدیم ترین اور سب سے بڑے قلعوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے اندر واقع زیادہ تر عمارات تیرہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوئیں۔
تصویر: Reuters/S. Auger
حلب کا قلعہ آج
ایک دور تھا کہ بڑی تعداد میں سیاح اس قلعے کو دیکھنے کے لیے دور دور سے جایا کرتے تھے۔ اب جنگ کے نتیجے میں اس کا بڑا حصہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ پہلے
چوبیس نومبر 2008ء: حلب شہر کا قدیم حصہ۔ لوگ رنگ برنگی روشنیوں کے درمیان ایک کیفے میں بیٹھے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ آج
تیرہ دسمبر 2016ء: حلب شہر کا قدیم علاقہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) پہلے
یہ تصویر دسمبر 2009ء کی ہے۔ حلب کے مشہور ڈیپارٹمنٹل اسٹور شھباء مول کی چھت سے کرسمس کے تحائف لٹک رہے ہیں۔ اس پانچ منزلہ ڈیپارٹمنٹل اسٹور کا افتتاح 2008ء میں ہوا تھا اور اس کا شمار ملک کے سب سے بڑے اسٹورز میں ہوتا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) آج
آج جو کوئی بھی گوگل میں شھباء مول کے الفاظ لکھتا ہے تو جواب میں اُسے یہ لکھا نظر آتا ہے: ’مستقل طور پر بند ہے۔‘‘ اس اسٹور کو 2014ء میں کی جانے والی بمباری سے شدید نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار پہلے
یہ تصویر 2008ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے ایک بازار کا داخلی دروازہ روشنیوں سے جگمگا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار آج
یہ تصویر دسمبر 2016ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے اس مشہور بازار کا داخلی دروازہ تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔