امریکا نے جنگ زدہ ملک شام میں اپنے اضافی فوجی اور بکتر بند گاڑیاں روانہ کی ہیں۔ ان فوجیوں کو تعینات کرنے کی وجہ روسی فوجیوں کے ساتھ ہونے والی جھڑپیں ہیں۔
اشتہار
خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے مشرقی حصے میں امریکی اور روسی فوجیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کو دیکھتے ہوئے مزید امریکی فوجی اور بکتر بند دستے روانہ کیے گئے ہیں۔ اس مناسبت سے امریکی سنٹرل کمانڈ کے ترجمان نیوی کیپٹن بِل اربن کا کہنا ہے کہ شام میں پہلے سے موجود فوجیوں کی نفری بڑھانے کے ساتھ ساتھ ایک راڈار نظام بھی روانہ کیا گیا ہے۔ اربن نے مزید بتایا کہ امریکی اور اس کے اتحادی فوجیوں کے تحفظ کے لیے جنگی طیاروں کی تعداد بھی بڑھا دی گئی ہے۔
اس ضمن میں سنٹرل کمانڈ کے ترجمان نے واضح کیا کہ اس علاقے میں امریکا کسی ملک کے ساتھ کوئی نیا تنازعہ کھڑا نہیں کرنا چاہتا لیکن ضروری ہوا تو اتحادی فوجیوں کی حفاظت کے لیے اقدام کرے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ مشرقی شامی علاقے میں امریکی اور روسی فاجیوں میں متعدد مرتبہ جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ حال ہی میں ایک امریکی فوجی گاڑی کو حادثہ بھی پیش آیا تھا اور اس میں چار فوجی زخمی ہوئے تھے۔
ایک سینیئر امریکی اہلکار نے اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ نصف درجن بریڈلی بکتر بند گاڑیاں روانہ کی گئی ہیں اور لگ بھگ ایک سو فوجی بھی مشرقی شام میں متعین کیے گئے ہیں۔ اسی حکومتی اہلکار کا مزید کہنا ہے کہ اس فوجی پیش رفت کا واضح پیغام روس کے لیے ہے کہ وہ مستقبل میں امریکی اور اتحادی ممالک کے فوجیوں کے خلاف غیر محفوظ اور اشتعال انگیز اقدامات سے حتی الامکان گریز کرے۔
رواں برس کے دوران مشرقی شام میں گشت کرنے والے امریکی اور روسی فوجیوں کے درمیان متعدد مرتبہ اشعال انگیزی کے حامل واقعات دیکھے گئے۔ ان میں سب سے زیادہ شدید جھڑپ گزشتہ ماہ یعنی اگست میں ہوئی تھی جب روسی فوجی گاڑی ایک ہلکی نوعیت کی امریکی بکتر بند گاڑی سے ٹکرائی تھی۔ اس واقعے میں چار امریکی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔
ایک امریکی اہلکار کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے دوران دو روسی ہیلی کاپٹرز بھی فضا میں موجود تھے جبکہ ایک جنگی طیارہ کم بلندی پر پرواز کر رہا تھا۔ روسی وزارتِ دفاع نے فوجی گاڑیوں کے ٹکرانے کی ذمہ داری امریکی فوج پر عائد کی تھی۔ یہ بھی کہا گیا کہ امریکی فوج کو قبل از وقت بتایا گیا تھا کہ روس فوجی پولیس کا قافلہ گزرنے والا ہے لہٰذا وہ مناسب انتظام کر لیں مگر ایسا نہیں کیا گیا اور فوجی پولیس کے قافلے کو روکنے کی کوشش کی گئی۔
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
عالمی امن پر تحقیق کرنے والے ادارے سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں عسکری اخراجات میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ اضافہ کرنے والے ممالک میں بھارت، چین، امریکا، روس اور سعودی عرب شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Talbot
عمان
مجموعی قومی پیداوار کا سب سے بڑا حصہ عسکری معاملات پر خرچ کرنے کے اعتبار سے خلیجی ریاست عمان سرفہرست ہے۔ عمان نے گزشتہ برس 6.7 بلین امریکی ڈالر فوج پر خرچ کیے جو اس کی جی ڈی پی کا 8.8 فیصد بنتا ہے۔ مجموعی خرچے کے حوالے سے عمان دنیا میں 31ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سعودی عرب
سپری کے رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اپنی مجموعی قومی پیداوار کا آٹھ فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ سن 2019 میں سعودی عرب نے ملکی فوج اور دفاعی ساز و سامان پر 61.9 بلین امریکی ڈالر صرف کیے اور اس حوالے سے بھی وہ دنیا بھر میں پانچواں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر نے گزشتہ برس 10.30 بلین ڈالر فوج اور اسلحے پر خرچ کیے جو اس ملک کی جی ڈی پی کا چھ فیصد بنتا ہے۔ عسکری اخراجات کے حوالے سے الجزائر دنیا کا 23واں بڑا ملک بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
کویت
تیسرے نمبر پر کویت ہے جہاں عسکری اخراجات مجموعی قومی پیداوار کا 5.6 بنتے ہیں۔ کویت نے گزشتہ برس 7.7 بلین امریکی ڈالر اس ضمن میں خرچ کیے اور اس حوالے سے وہ دنیا میں میں 26ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/U.S. Marines
اسرائیل
اسرائیل کے گزشتہ برس کے عسکری اخراجات 20.5 بلین امریکی ڈالر کے مساوی تھے اور زیادہ رقم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں اسرائیل کا 15واں نمبر ہے۔ تاہم جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کا 5.3 فیصد فوج پر خرچ کر کے جی ڈی پی کے اعتبار سے اسرائیل پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AFP/H. Bader
آرمینیا
ترکی کے پڑوسی ملک آرمینیا کے عسکری اخراجات اس ملک کے جی ڈی پی کا 4.9 فیصد بنتے ہیں۔ تاہم اس ملک کا مجموعی عسکری خرچہ صرف 673 ملین ڈالر بنتا ہے۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
اردن
اردن اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 4.9 فیصد فوج اور عسکری ساز و سامان پر خرچ کر کے اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ اردن کے دفاع پر کیے جانے والے اخراجات گزشتہ برس دو بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی رقم خرچ کرنے کی فہرست میں اردن کا نمبر 57واں بنتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
لبنان
لبنان نے گزشتہ برس 2.5 بلین امریکی ڈالر عسکری اخراجات کیے جو اس ملک کے جی ڈی پی کے 4.20 فیصد کے برابر ہیں۔
تصویر: AP
آذربائیجان
آذربائیجان نے بھی 1.8 بلین ڈالر کے عسکری اخراجات کیے لیکن جی ڈی پی کم ہونے کے سبب یہ اخراجات مجموعی قومی پیداوار کے چار فیصد کے مساوی رہے۔
تصویر: REUTERS
پاکستان
سپری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گزشتہ برس اپنی مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد فوج اور عسکری معاملات پر خرچ کیا۔ سن 2019 کے دوران پاکستان نے 10.26 بلین امریکی ڈالر اس مد میں خرچ کیے یوں فوجی اخراجات کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا 24واں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
روس
روس کے فوجی اخراجات 65 بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی خرچے کے اعتبار سے وہ دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ تاہم یہ اخراجات روسی جی ڈی پی کے 3.9 فیصد کے مساوی ہیں اور اس اعتبار سے وہ گیارہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Pitalev
بھارت
بھارت عسکری اخراجات کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس بھارت کا فوجی خرچہ 71 بلین امریکی ڈالر کے برابر رہا تھا جو اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا 2.40 فیصد بنتا ہے۔ اس حوالے وہ دنیا میں 33ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
چین
چین دنیا میں فوجی اخراجات کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے اور گزشتہ برس بیجنگ حکومت نے اس ضمن میں 261 بلین ڈالر خرچ کیے۔ یہ رقم چین کی جی ڈی پی کا 1.90 فیصد بنتی ہے اور اس فہرست میں وہ دنیا میں 50ویں نمبر پر ہے۔
دنیا میں فوج پر سب سے زیادہ خرچہ امریکا کرتا ہے اور گزشتہ برس کے دوران بھی امریکا نے 732 بلین ڈالر اس مد میں خرچ کیے۔ سن 2018 میں امریکی عسکری اخراجات 682 بلین ڈالر رہے تھے۔ تاہم گزشتہ برس اخراجات میں اضافے کے باوجود یہ رقم امریکی مجموعی قومی پیداوار کا 3.40 فیصد بنتی ہے۔ اس حوالے سے امریکا دنیا میں 14ویں نمبر پر ہے۔
دوسری جانب امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میکنزی کا کہنا تھا کہ روسی فوجیوں کو اُس علاقے میں نہیں ہونا چاہیے تھا جہاں ان کو اجازت نہیں تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ممنوعہ علاقے میں داخل ہونے کی باقاعدہ اجازت لینا چاہیے تھی اور بلا شبہ روسی فوجیوں کے اقدام کو کسی بھی صورت میں مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حال ہی میں جنرل میکنزی کا کہنا تھا کہ روسی فوجی تنازعاتی علاقے میں عدم تعاون کر رہے ہیں اور اس تناظر میں امریکی فوجیوں کے مکمل تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔
مشرقی شام میں گشتی امریکی فوجیوں کے ہمران سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے مسلح اہلکار بھی ہوتے ہیں۔