امریکی فضائیہ سے تعلق رکھنے والے چالیس سالہ پائلٹ لفیٹینٹ کرنل جیرمی رینکن کو شام میں ایک مشن کے دوران ایک ایرانی ڈرون کو مار گرانے کا فیصلہ کرنا پڑا، ایک فیصلہ جو اس پورے تنازعے کو ہوا دے سکتا تھا۔
اشتہار
چار بچوں کے والد امریکی پائلٹ رینکن شام میں ایف پندرہ ای اسٹرائیک ایگل لڑاکا طیارہ اڑا رہے تھے، جب ان کا سامنا ایرانی ساختہ ڈرون سے ہوا، جو امریکی حمایت یافتہ شامی باغیوں کے خلاف کارروائی میں مصروف تھا۔
امریکی پائلٹ کے مطابق اس ڈرون کی جانب سے شامی باغیوں پر کیا گیا پہلا حملہ ناکام ہوا اور یہ طیارہ دوبارہ حملے کے لیے پر تولنے لگا، تو آٹھ جون کو شام میں جاری لڑائی میں امریکا کی جانب سے ایک غیرعمومی رخ اختیار کیا گیا۔ رینکن نے اس ایرانی ساختہ ڈرون کو مار گرایا، حالاں کہ اس وقت فضا میں دو روسی لڑاکا طیارے یہ سارا منظر کچھ ہی فاصلے سے دیکھ رہے تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز سے اپنے ایک انٹرویو میں رینکن نے بتایا، ’’جب ہم نے دیکھا کہ یہ ڈرون حملے کے لیے پرتول رہا ہے اور ہم پر بھی حملہ کر سکتا ہے، تو پھر ہمیں کسی اجازت کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم نے اسے تباہ کر دیا۔‘‘
ڈرون طياروں کے خلاف فرانسيسی فوج کا نيا ہتھيار عقاب
ڈرونز کے ذريعے کی جانے والی جاسوسی اور فضائی حملوں سے بچنے کے ليے فرانسيسی فوج نے ايک انوکھا طريقہ اختيار کيا ہے۔ عقابوں کو ايسی خصوصی تربيت دی جا رہی ہے کہ وہ ممکنہ خطرات کو فضا ہی ميں نشانہ بنا سکيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Gobet
تاريخی ناول کے کردار
سن 2016 کے وسط سے ڈارتانياں نامی يہ عقاب فضا ميں ممکنہ خطرات سے نمٹنے اور انہيں ناکارہ بنانے کی تربيت حاصل کر رہا ہے۔ موں دے مارساں ايئر بيس پر ڈارتانياں کے علاوہ ايتھوس، پارتھوس اور ارامس کو بھی اسی کام کے ليے تربيت فراہم کی گئی ہے۔ ان تمام عقابوں کو اليگزاندرے دوماس کے تاريخی ناول ’دا تھری مسکٹيئرز‘ کے کرداروں کے نام ديے گئے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Gobet
عقابوں کی تربيت کے خصوصی مراکز
موں دے مارساں ايئر بيس بوردو سے قريب اسّی ميل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس اڈے کا شمار فرانس کے ان پانچ اڈوں ميں ہوتا ہے، جہاں عقابوں کو تربيت دی جاتی ہے۔ عموماً يہ عقاب رن وے سے دوسرے پرندوں کو دور رکھنے کے ليے استعمال کيے جاتے رہے ہيں تاہم جنوری 2015 ميں دہشت گردانہ واقعات کے بعد سے فرانسيسی حکام چوکنا ہيں۔ نتيجتاً ان عقابوں کو مشکوک ڈرونز يا ممکنہ فضائی خطرات کے مقابلے کے ليے تعينات کيا گيا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Gobet
ابتدا سے انجام تک صرف بيس سيکنڈ ميں مشن مکمل
شکار کا تعاقب شروع کرنے کے صرف بيس ہی سيکنڈ بعد ڈرون عقاب کے شکنجوں ميں تھا۔ ڈارتانياں ڈرون کو اپنے پنجوں ميں جکڑ کر زمين پر لايا اور پھر شاہانہ انداز ميں اپنے پر پھيلا کر اس پر کھڑا ہو گيا۔ در اصل ڈرون طياروں کو پکڑنے کے ليے عقاب کو تربيت دينے کا خيال سب سے پہلے ہالينڈ کی پوليس کو آيا تھا۔ وہاں سن 2015 کے اواخر سے عقاب يہ کام سر انجام دے رہے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Gobet
جيت کا جشن
عقاب اسّی کلوميٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑنے کی صلاحيت رکھتے ہيں۔ ڈرون کو فضا ہی ميں پکڑنے اور زمين تک لانے کے بعد چاروں مسکٹيئرز کو اُسی ڈرون کے اوپر کھانا ديا گيا۔ در اصل ان عقابوں کو يہ تربيت اس وقت سے دی جا رہی ہے جب وہ صرف تين ماہ کے تھے۔ انہيں خوراک کے بدلے ڈرون پکڑنے کی ترغيب دی جاتی ہے۔ اب جيسے ہی وہ کسی ڈرون يا اڑنے والی شے کی آواز سنتے ہيں، ان کی شکاری حِس جاگ اٹھتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Gobet
فرانس نے گولڈن ايگل کا انتخاب کيوں کيا؟
کسی مشکوک ڈرون کو روکنے کے ليے پرندوں کا استعمال فرانسيسی فوج نے ہالينڈ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے گزشتہ برس شروع کيا۔ فرانس نے اس کام کے ليے گولڈن ايگل کا انتخاب کيا۔ اپنی ٹيڑھی چونچوں کے ساتھ يہ عقاب پيدائشی طور پر شکاری حِس کے حامل ہوتے ہيں۔ اڑتے وقت ان کے پروں کی چوڑائی 2.2 ميٹر تک بھی ہو سکتی ہے۔ گولڈن ايگل کی نظر بھی کافی تيز ہوتی ہے اور يہ دو کلوميٹر کے دوری پر بھی اپنے شکار کو ديکھ سکتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Gobet
خوگوش اور گلہريوں کے بجائے ڈرون پسنديدہ شکار
گولڈن ايگل کے پنجے بھی کافی طاقتور ہوتے ہيں۔ ايک اور اہم بات يہ ہے کہ ان کے پنجوں پر بھی پر ہوتے ہيں جن کی مدد سے وہ مختلف اقسام کے زمين پر چلنے والے جانوروں کو شکار بنا سکتے ہيں۔ يہ عقاب عموماً خرگوش اور گلہريوں کا شکار کرتے ہيں۔ موں دے مارساں ايئر بيس پر البتہ وہ ڈرون پکڑنے کو ترجيح ديتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Gobet
تحفظ کا خصوصی انتظام
فرانسيسی فوج اپنے ان خصوصی عقابوں کے تحفظ کا بھی خيال رکھتی ہے۔ ان کے پنجوں کو رگڑ، سخت سطحوں اور دھماکوں سے بچانے کے ليے چمڑے اور سنتھيٹک فائبر نامی کافی مضبوط مادے کے دستانے نما کپڑے بنائے جاتے ہيں۔ يہ خيال بھی رکھا جاتا ہے کہ پرندوں کو اتنے بڑے ڈرونز کے پيچھے نہ بھيجا جائے، جو ان کے ليے خطرہ بن سکتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Gobet
7 تصاویر1 | 7
شہید 129 نامی اس ایرانی ساختہ ڈرون کو مار گرائے جانے کا یہ واقعہ جون میں پیش آنے والے اس طرز کے متعدد واقعات میں سے ایک تھا۔ ان واقعات کو شامی تنازعے کی نئی جہت متعین کرنے سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے۔
رینکن اور دیگر امریکی پائلٹوں کی جانب سے لیے گئے ان فیصلوں، جن میں دو ڈرونز اور ایک شامی لڑاکا طیارے کی تباہی پر نہ تو شامی فورسز کی جانب سے اس انداز کا کوئی ردعمل سامنے آیا اور نہ ہی ایرانی ڈرونز کی طرف سے۔ امریکی حکام کے مطابق ان واقعات نے ایران اور شام کو ایک واضح پیغام دے دیا ہے۔
تاہم روئٹرز کے مطابق رینکن کی جانب سے ایرانی ڈرون مار گرائے جانے کا واقعہ شامی تنازعے سے جڑے ان بے شمار خطرات کی بھی نشان دہی کرتا ہے، جہاں ایک ہی علاقے میں امریکا، روس، شام اور دیگر ممالک کے طیارے کارروائیاں کر رہے ہیں اور کوئی بھی ناخوش گوار واقعہ اس تنازعے کی سنگینی میں کئی گنا اضافہ کر سکتا ہے۔