شام میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کے خلاف امریکی فضائی حملے
24 اگست 2022
امریکہ نے دیر الزور میں فضائی حملے کر کے ایران کے پاسداران انقلاب کی حمایت یافتہ شامی ملیشیا کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ امریکی فوج کی مرکزی کمان کے مطابق امریکی اہلکاروں کی حفاظت اور دفاع کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔
اشتہار
امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ نے بتایا کہ امریکی فوج نے شام کے دیر الزور نامی شہر میں بدھ چوبیس اگست کو علی الصبح فضائی حملے کیے، جن میں ایران کی پاسداران انقلاب کہلانے والی فورس سے وابستہ عسکریت پسند گروپوں کے زیر استعمال ٹھکانوں اور دیگر تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ سینٹرل کمانڈ نے بتایا کہ یہ حملے امریکی صدر جو بائیڈن کے حکم پر کیے گئے۔
امریکی فوج نے ان حملوں میں ممکنہ ہلاکتوں یا نشانہ بنائے گئے مخصوص اہداف کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔ یہ بھی واضح نہیں کہ یہ حملے جنگی طیاروں سے کیے گئے یا ان کے لیے ڈرونز استعمال ہوئے۔
شام یا ایران نے فوری طور پر ان امریکی فضائی حملوں کی تصدیق نہیں کی۔
’حملے ضروری تھے،‘ امریکی فوجی اہلکار
امریکی فوج کے کرنل جو بوکینو نے کہا، ''یہ حملے امریکی اہلکاروں کی حفاظت اور ان کے دفاع کے لیے ضروری تھے۔‘‘ امریکی فوج کی مرکزی کمان کی طرف سے مزید بتایا گیا، ''یہ کارروائی حملوں کے خطرات کو محدود کرنے اور ہلاکتوں کے امکانات کو کم سے کم رکھنے کی نیت سے دانستہ طور پر کی گئی۔‘‘
امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے ترجمان بوکینو نے کہا کہ یہ فضائی حملے ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کی جانب سے 15 اگست کو کیے جانے والے ان حملوں کے جواب میں کیے گئے، جن میں امریکی فوج کے زیر استعمال التنف فوجی چھاؤنی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔
شام میں اس وقت امریکہ کے تقریباً 900 فوجی تعینات ہیں جب کہ دریائے فرات کے مغرب میں ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
دریں اثنا سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے جاری مذاکرات میں یورپی یونین کی تجاویز پر ایران کی جانب سے پیش کردہ جواب پر امریکہ اپنے ردعمل کا اعلان کرنے ہی والا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے امریکہ کو یک طرفہ طور پر الگ کر لیا تھا تاہم صدر جو بائیڈن اسے جوہری معاہدے کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔
ج ا / م م (اے پی، روئٹرز)
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
سید روح اللہ موسوی خمینی کی قیادت میں مذہبی رہنماؤں نے ٹھیک چالیس برس قبل ایران کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ تب مغرب نواز شاہ کے خلاف عوامی غصے نے خمینی کا سیاسی راستہ آسان کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
احساسات سے عاری
خمینی یکم فروری سن 1979 کو اپنی جلا وطنی ختم کر کے فرانس سے تہران پہنچے تھے۔ تب ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو اس مذہبی رہنما کا جواب تھا، ’’کچھ نہیں۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا‘۔ کچھ مبصرین کے مطابق خمینی نے ایسا اس لیے کہا کیونکہ وہ ایک ’روحانی مشن‘ پر تھے، جہاں جذبات بے معنی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
شاہ کی بے بسی
خمینی کے وطن واپس پہنچنے سے دو ماہ قبل ایران میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ مختلف شہروں میں تقریبا نو ملین افراد سڑکوں پر نکلے۔ یہ مظاہرے پرامن رہے۔ تب شاہ محمد رضا پہلوی کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ خمینی کی واپسی کو نہیں روک سکتے اور ان کی حکمرانی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
خواتین بھی آگے آگے
ایران میں انقلاب کی خواہش اتنی زیادہ تھی کہ خواتین بھی خمینی کی واپسی کے لیے پرجوش تھیں۔ وہ بھول گئی تھیں کہ جلا وطنی کے دوران ہی خمینی نے خواتین کی آزادی کی خاطر اٹھائے جانے والے شاہ کے اقدامات کو مسترد کر دیا تھا۔ سن 1963 میں ایران کے شاہ نے ہی خواتین کو ووٹ کا حق دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/IMAGNO/Votava
’بادشاہت غیر اسلامی‘
سن 1971 میں شاہ اور ان کی اہلیہ فرح دیبا (تصویر میں) نے ’تخت جمشید‘ میں شاہی کھنڈرات کے قدیمی مقام پر ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ تب خمینی نے اپنے ایک بیان میں بادشاہت کو ’ظالم، بد اور غیر اسلامی‘ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/akg-images/H. Vassal
جلا وطنی اور آخری سفر
اسلامی انقلاب کے دباؤ کی وجہ سے شاہ چھ جنوری سن 1979 کو ایران چھوڑ گئے۔ مختلف ممالک میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد سرطان میں مبتلا شاہ ستائیس جنوری سن 1980 کو مصری دارالحکومت قاہرہ میں انتقال کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
طاقت پر قبضہ
ایران میں اسلامی انقلاب کے فوری بعد نئی شیعہ حکومت کے لیے خواتین کے حقوق مسئلہ نہیں تھے۔ ابتدا میں خمینی نے صرف سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاذ کرنا شروع کیا۔
تصویر: Tasnim
’فوج بھی باغی ہو گئی‘
سن 1979 میں جب خمینی واپس ایران پہنچے تو ملکی فوج نے بھی مظاہرین کو نہ روکا۔ گیارہ فروری کو فوجی سربراہ نے اس فوج کو غیرجانبدار قرار دے دیا تھا۔ اس کے باوجود انقلابیوں نے فروری اور اپریل میں کئی فوجی جرنلوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPU
نئی اسلامی حکومت
ایران واپسی پر خمینی نے بادشات، حکومت اور پارلیمان کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نئی حکومت نامزد کریں گے کیونکہ عوام ان پر یقین رکھتے ہیں۔ ایرانی امور کے ماہرین کے مطابق اس وقت یہ خمینی کی خود التباسی نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
انقلاب کا لبرل رخ
اسکالر اور جمہوریت نواز سرگرم کارکن مہدی بازرگان شاہ حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں آگے آگے تھے۔ خمینی نے انہیں اپنا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا۔ تاہم بازرگان اصل میں خمینی کے بھی مخالف تھے۔ بازرگان نے پیرس میں خمینی سے ملاقات کے بعد انہیں ’پگڑی والا بادشاہ‘ قرار دیا تھا۔ وہ صرف نو ماہ ہی وزیرا عظم رہے۔
تصویر: Iranian.com
امریکی سفارتخانے پر قبضہ
نومبر سن 1979 میں ’انقلابی طالب علموں‘ نے تہران میں قائم امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا اور اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ یہ انقلابی خوفزدہ تھے کہ امریکا کی مدد سے شاہ واپس آ سکتے ہیں۔ خمینی نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور اپنے مخالفین کو ’امریکی اتحادی‘ قرار دے دیا۔
تصویر: Fars
خمینی کا انتقال
کینسر میں مبتلا خمینی تین جون سن 1989 میں چھیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کو تہران میں واقع بہشت زہرہ نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کی آخری رسومات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تصویر: tarikhirani.ir
علی خامنہ ای: انقلاب کے رکھوالے
تین جون سن 1989 میں سپریم لیڈر خمینی کے انتقال کے بعد علی خامنہ ای کو نیا رہنما چنا گیا۔ انہتر سالہ خامنہ ای اس وقت ایران میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت ہیں اور تمام ریاستی ادارے ان کے تابع ہیں۔