1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

شام: 'ایرانی حمایت یافتہ گروپوں' کو نشانہ بنایا گیا، امریکہ

12 نومبر 2024

امریکی سینٹرل کمانڈ کا کہنا ہے کہ اس کی فوج نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران شام میں دو مقامات پر نو اہداف کو نشانہ بنایا۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ حملے امریکی افواج پر کیے گئے حملوں کے جواب میں کیے گئے۔

شام پر فضائی حملہ
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کی اطلاع کے مطابق امریکہ کے ان حملوں میں ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروپوں کے چار شامی ارکان ہلاک اور 10 دیگر افراد اس وقت شدید طور پر زخمی ہوئےتصویر: Muhammad Khair/AA/abaca/picture alliance

امریکی فوج کی مرکزی کمانڈ (سینٹ کام) کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے شام میں متعدد اہداف کے خلاف حملے کیے ہیں، جس میں "ایران سے ہم آہنگ اہداف" کو نشانہ بنایا گیا اور یہ حملے امریکی افواج کے خلاف ہونے والے حالیہ حملوں کا جواب تھا۔

لبنان میں پیجر دھماکے: متعدد ہلاک، ہزاروں افراد زخمی

سینٹ کام کے کمانڈر جنرل مائیکل ایرک کوریلا نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا کہ امریکی فوجی کارروائی کے ذریعے شام میں ایران کے حمایت یافتہ سرگرم مسلح گروپوں کو "واضح" پیغام  دیا گیا ہے۔

اسرائیل حماس تنازعہ اور عرب دنیا، کون کس کے ساتھ ہے؟

کوریلا نے شام میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران امریکی فوجی اہلکاروں پر حملوں کو "لاپرواہی" قرار دیتے ہوئے کہا کہ "خطے میں امریکہ اور اتحادیوں کے خلاف حملوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔"

صدر بشار الاسد کے مضبوط گڑھ لاذقیہ پر اسرائیلی حملے

بیان میں مزید کہا گیا کہ "یہ حملے ایرانی حمایت یافتہ گروپوں کی مستقبل میں حملوں کی منصوبہ بندی کرنے اور انہیں شروع کرنے کی صلاحیت کو کم کر دیں گے۔" انہوں نے مزید کہا کہ امریکی حملوں میں دو مقامات پر نو اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔

امریکہ کے تقریباً 900 فوجی شام کے مشرقی حصے میں تعینات ہیں اور 2500 مزید فوجی پڑوسی ملک عراق میں موجود ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان فوجیوں کا مشن داعش کے نام سے معروف نام نہاد اسلامی شدت پسند گروپ کے خلاف مدد کرنا اور مقامی فوجیوں کو تربیت دینا ہے۔ 

لبنان میں اسرائیلی بمباری، شامی فوج کا کاروبار

البتہ امریکی فوج نے یہ واضح نہیں کیا کہ شام میں کن مسلح گروپوں کو نشانہ بنایا گیا یا ان حملوں کے نتیجے میں کتنی ہلاکتیں یا نقصان ہوا۔تصویر: William Howard/Us Air/Planet Pix via ZUMA/picture alliance

ان حملوں میں کسی امریکی اہلکار کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ملی۔

سینٹ کام کے مطابق پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران ایرانی حمایت یافتہ گروپوں نے جہاں بھی امریکی فوجیوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، وہاں حملوں کے نتیجے میں امریکی فوجیوں کو نقصان نہیں پہنچا۔

تاہم امریکی فوج نے یہ بھی واضح نہیں کیا کہ شام میں کن مسلح گروپوں کو نشانہ بنایا گیا یا ان حملوں کے نتیجے میں کتنی ہلاکتیں یا نقصان ہوا۔

قومی یکجہتی کی کوشش، حماس اور فتح میں مذاکرات

برطانیہ میں قائم مانیٹرنگ گروپ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے اطلاع دی ہے کہ پیر کے روز ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروپوں کے چار شامی ارکان ہلاک اور 10 دیگر افراد اس وقت شدید طور پر زخمی ہوئے جب "بین الاقوامی اتحاد" کے جنگی طیاروں نے مشرقی شام کے دیر الزور کے دیہی علاقے المعیادین میں ایک "ہیڈ کوارٹر" پر حملہ کیا۔

شام کے سرکاری میڈیا نے اس سے قبل پیر کے روز اطلاع دی تھی کہ اسرائیلی فضائیہ نے لبنان کی سرحد سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شامسین کے علاقے میں امدادی قافلے پر حملہ کیا، جس سے شام کی وہ مرکزی شمال-جنوب شاہراہ بند ہو گئی تھی جو دارالحکومت دمشق کو شمالی شہر حلب سے ملاتی ہے۔

البتہ اس حوالے سے فوری طور پر ہلاکتوں کی کوئی اطلاع نہیں ملی اور سرکاری ٹیلیویژن نے حملہ کرنے والے قافلے کے بارے میں تفصیلات بھی فراہم نہیں کیں۔ واضح رہے کہ یہ علاقہ لبنان پر اسرائیلی حملوں سے فرار ہونے والے پناہ گزینوں کے اجتماع کے مقام کے طور پر معروف ہے۔

اسرائیلی حملے: لبنان سے تقریباً ایک لاکھ افراد شام میں داخل

شام کی عرب خبر رساں ایجنسی صنعا نے اطلاع دی ہے کہ اتوار کے روز ایک اسرائیلی فضائی حملے میں دمشق کے نواحی علاقے سیدہ زینب میں ایک رہائشی عمارت کو بھی نشانہ بنایا گیا، جس میں خواتین اور بچوں سمیت سات شہری ہلاک ہوئے۔ صنعا کے مطابق اس حملے میں بیس دیگر زخمی ہوئے۔

اسرائیل نے حالیہ برسوں میں شام میں سیکڑوں حملے کیے ہیں، تاہم وہ شاذ و نادر ہی اپنے پڑوسی پر حملوں کو تسلیم کرتا ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ وہ ان حملوں میں ان ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروہوں کو نشانہ بناتا ہے، جو اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

ایران کا مشرق وسطیٰ کے بحران میں کلیدی کردار

03:15

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں