اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس نے شام میں ایرانی عسکری اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ ادھر روس نے کہا ہے کہ شامی میزائل شکن نظام نے تیس سے زائد اسرائیلی میزائلوں کو تباہ کر دیا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اسرائیلی فوج کے حوالے سے بتایا ہے کہ آج پیر 21 جنوری کو علی الصبح اسرائیلی فورسز نے شام میں ایرانی عسکری اہداف کو نشانہ بنایا۔
اطلاعات کے مطابق گولان کے پہاڑی علاقے سے اسرائیل پر راکٹ فائر کیا گیا تھا، جسے اسرائیلی میزائل شکن نظام نے ہوا میں ہی تباہ کر دیا تھا۔ اس کارروائی کے بعد اسرائیلی فورسز نے جوابی کارروائی کی۔
اسرائیلی فورسز کے مطابق دمشق کے نواح میں ایرانی انقلاب کے پاسدران کی ایلیٹ ’القدس فورس‘ کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی فوج کی طرف پیر کے دن جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق، ’’رات کے دوران اسرائیلی دفاعی افواج کے جنگی طیاروں نے شام میں ایرانی قدس فورس کے فوجی اڈوں پر حملے کیے اور ساتھ ہی شامی فضائی دفاعی بیٹریوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔‘‘
اسرائیلی حکام کے مطابق ان حملوں میں دمشق کے ہوائی اڈے میں واقع اسلحے کے ایک ڈپو پر حملہ کیا گیا۔ اسرائیلی فوج کا الزام ہے کہ ایران نے اس مقام پر نہ صرف ایک خفیہ سیل قائم کر رکھا ہے بلکہ اسے ایک فوجی تربیتی کیمپ کے طور بھی استعمال کیا جا رہا تھا۔ اس حملے کے دوران اسرائیلی فورسز نے شامی ایئر فورس کو خبردار کر دیا تھا کہ اس کے طیاروں کا راستہ روکنے کی کوشش نہ کی جائے۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بتایا ہے کہ اسرائیلی عسکری کارروائی کے نتیجے میں کم از کم گیارہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ادھر روسی حکام نے کہا ہے کہ شامی ملٹری ایئر ڈیفنس نظام نے تیس کروز میزائل ہوا میں بھی تباہ کر دیے۔ انٹر فیکس نے بتایا ہے کہ اس اسرائیلی حملے میں چار شامی فوجی ہلاک جبکہ چھ زخمی ہوئے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے، ’’یہ مستقل پالیسی ہے کہ وہ شام میں ایرانی عسکری ٹھکانوں کو نقصان پہنچائے اور اسرائیل کو نقصان پہنچانے والوں کو جوابی طور پر نقصان پہنچائے‘‘۔ قبل ازیں اسرائیلی فورسز نے کہا کہ شام سے اسرائیل پر راکٹ حملہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایران شام کو مورچہ بنانا چاہتا ہے، جس سے اسرائیل اور علاقائی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔
ع ب / ا ب ا / خبر رساں ادارے
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔