شام میں ایرانی فوجیوں کی ہلاکت میں اضافہ
22 دسمبر 2015ایرانی ویب سائٹ کے مطابق رواں برس کے مہینے اکتوبر سے ایک سو سے زائد پاسدارانِ انقلاب کے مسلح اہلکار یا ایرانی فوجی مشیر شام میں ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔ ان میں چار اعلیٰ فوجی افسران ہیں۔ سن 2012 سے مسلح تنازعے کے شروع ہونے کے بعد سے اِس سال ستمبر تک ایران کے تقریباً ایک سو قریب فوجی ہلاک ہوئے تھے اور صرف دو ماہ میں اِس تعداد میں انتہائی زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایرانی مسلح اہلکار شام میں اسد حکومت کے مخالفین کے سامنے آن کھڑے ہوئے ہیں۔
لبنانی دارالحکومت بیروت میں قائم امریکن یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہلال خاشان کا خیال ہے کہ ایران نے شام میں اپنی موجودگی میں اضافہ کر کے شامی فوجی دستوں کی قوت میں بھی اضافہ کیا ہے۔ حالیہ ہفتوں کے دوران روس اور ایران کی عسکری سرگرمیوں کے بعد شامی فوج نے مختلف مقامات پر اپنے آپ کو پیچھے کر لیا ہے اور اگلی صفوں میں اب ایرانی پاسدرانِ انقلاب کے دستے ہیں۔ مغربی تجزیہ کاروں کے مطابق حلب کی جنگ میں ایرانی عسکری شمولیت نے روس فضائی کارروائی کا انتظار کر کے ہی قدم بڑھایا ہے۔
ایران، شام کے صدر بشار الاسد اور اُن کے حلیف روس کا کھلا اتحادی ہے۔ ان کے ساتھ لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ بھی شامل ہے۔ اِس اتحاد کو اُن مسلح باغیوں کا سامنا ہے جنہیں بعض عرب ملکوں کی حمایت و تائید حاصل ہے۔ بین الاقوامی سطح پر روس اور ایران کو امریکا، سعودی عرب اور دوسرے اتحادیوں کی مخالفت کا سامنا ہے۔ امریکا نے شام میں اعتدال پسند باغیوں کو تربیت دینے کے علاوہ فوجی مدد بھی فراہم کی تھی۔ شام میں باغیوں اور اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کو امریکی اتحاد کے علاوہ روس اور فرانس کے جنگی طیاروں کے حملوں اور بمباری کا سامنا ہے۔
رواں برس اکتوبر میں ایران کے بریگیڈئر جنرل حسین ہمدانی کو شامی شہر حلب کے قریب ایک حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا وہ شام میں ہلاک ہونے والے سینیئر ترین ایرانی فوجی افسر تھے۔ حسین ہمدانی کی ہلاکت کو ایران میں انتہائی اہمیت حاصل ہوئی۔ اِس مناسبت سے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ اِس ہلاکت سے شام میں ایران کی فوجی شمولیت کے حوالے سے ایک نئے عکہد کا آغاز ہوا ہے۔ اِس وقت تین ہزار سے زائد ایرانی فوجی شورش زدہ عرب ملک کے کئی حصوں میں متعین ہیں۔