1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں بگڑتی صورتحال ، اقوام متحدہ کی تشویش

3 مارچ 2012

صدر بشار الاسد کی حامی فورسز نے آج ہفتے کے دن حُمص میں ایک نئی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنوں کے مطابق سکیورٹی فورسز نے اب کچھ رہائشی علاقوں پر بھی شیلنگ کی ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

بین الاقوامی امدادی ادارے ریڈ کراس نے متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان کی ترسیل کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ شام کی تازہ صورتحال پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ حمص میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے تازہ کارروائی ایسے وقت میں شروع کی گئی ہے جب ایک روز قبل ہی بان کی مون نے کہا تھا کہ شام میں شدید تشدد کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

بان کی مون نے کہا کہ شامی حکومت شہریوں کے تحفظ کو ممکن بنانے کی اپنی اہم ذمہ داری میں ناکام ہو چکی ہے۔ متعدد شہروں میں شہری آبادی کو فوجی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے دمشق حکومت پر زور دیا کہ متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان پہنچانے اور وہاں سے زخمیوں کو نکالنے کے لیے اجازت دی جائے۔

بان کی مونتصویر: picture-alliance/dpa

انسانی حقوق کے کارکنوں نے بتایا ہے کہ بابا عمرو کے مضافات میں واقع جوبار نامی علاقے میں ہفتے کی صبح سے سکیورٹی فورسز مارٹر گولوں سے فائرنگ کر رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مواصلاتی نظام معطل ہونے کی وجہ سے انہیں اس حوالے سے زیادہ معلومات موصول نہیں ہو سکی ہیں اور وہ اس نئی کارروائی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں بھی کچھ نہیں بتا سکتے۔

شدید سردی کے باوجود متاثرہ آبادی کو امداد پہنچانے کا سلسلہ بھی ابھی تک شروع نہیں ہوسکا ہے۔ بین الاقوامی امدادی ادارے ریڈ کراس کے بقول اس کےامدادی سامان سے لدے سات ٹرک حمص پہنچ چکے ہیں تاہم انہیں بابا عمرو میں داخلے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ ادارے کے ترجمان حشام حسن نے جنیوا میں روئٹرز کو بتایا ہے کہ وہ دمشق حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ متاثرہ علاقوں تک خوراک، ادویات اور دیگر ضروری سامان پہنچایا جا سکے۔

شام میں ریڈ کراس کے ترجمان نے کہا ہے کہ اگرچہ حکومت نے انہیں امدادی سامان کےساتھ بابا عمرو میں جانے کی اجازت دے دی ہے تاہم سکیورٹی فورسز نے انہیں یہ کہہ کر روک رکھا ہے کہ آگے سکیورٹی حالات مناسب نہیں ہیں۔ حکومت مخالف طاقتوں کا کہنا ہے کہ دمشق حکومت ریڈ کراس کو متاثرہ علاقوں میں داخل ہونے سے اس لیے روک رہی ہے کیونکہ اس سے عالمی برداری کو معلوم ہو جائے گا کہ سکیورٹی فورسز وہاں کس طرح سے نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

شدید سردی کے باوجود متاثرہ آبادی کو امداد پہنچانے کا سلسلہ بھی ابھی تک شروع نہیں ہوسکا ہےتصویر: dapd

اس صورتحال میں عالمی ادارے کے سربراہ بان کی مون نے دمشق حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خونریز لڑائی کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔ نہ تو ان کے پاس خوراک ہے اور نہ ہی ادویات۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اپنے ہی عوام کے خلاف ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حملہ کر رہی ہے۔

دریں اثناء شام کی سرکاری نیوز ایجنسی نے کہا ہے کہ اردن کی سرحد سے ملحق درعا نامی شہر میں ایک خود کش حملے کے نتیجے میں دو افراد ہلاک جبکہ بیس زخمی ہو گئے ہیں۔ شام میں گزشتہ ایک برس سے جاری حکومت مخالف مظاہروں کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ساڑھے سات ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں