سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بتایا ہے کہ شام کے شمال مغربی علاقوں میں تازہ فضائی حملوں کے نتیجے میں کم ازکم اٹھائیس شہری مارے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ہلاک شدگان میں چار بچے بھی شامل ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ تازہ بمباری صوبے ادلب کے شہر اماناز میں جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات کی گئی۔ بتایا گیا ہے کہ ترک سرحد سے متصل اس علاقے میں یہ کارروائی داعش کے ٹھکانوں پر کی گئی لیکن ہلاک شہری ہوئے۔
لندن میں قائم غیر سرکاری ادارے آبزرویٹری نے قبل ازیں بتایا تھا کہ ادلب کے صوبائی دارالحکومت سے بیس کلو میٹر دور واقع حرم نامی شہر میں بمباری کے نتیجے میں مبینہ طور پر بیس افراد ہلاک ہوئے۔
شام کی صورتحال پر گہری نگاہ رکھنے والے اس ادارے کے مطابق فوری طور پر معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ نامزد کیے جانے والے ان ’محفوظ علاقوں‘ میں یہ بمباری شامی فضائیہ نے کی یا روسی طیاروں نے۔ روس، ترکی اور ایران نے ادلب کے کچھ علاقوں کو محفوظ قرار دیا تھا، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہاں کوئی فوجی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اب ان علاقوں کی تعداد میں اضافے کی کوشش بھی جاری ہے۔
آبزرویٹری کے مطابق ادلب کے ان علاقوں میں حالیہ کچھ دونوں کے دوران شامی فوج کی کارروائیوں میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے، جو داعش کے جہادیوں کے خلاف عسکری مہم میں شریک ہیں۔ چیرٹی ادارے ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق اس تازہ فضائی کارروائیوں کی وجہ سے اس صوبے میں کئی ہسپتالوں کو بھی بند کرنا پڑ گیا ہے۔
ادلب کے ہمسائے میں واقع حمص صوبے میں جہادیوں کے حملوں میں اضافے کے بعد شامی فورسز نے حمص اور ادلب دونوں صوبوں میں اپنی کارروائیوں میں تیزی پیدا کی ہے۔ آبزرویٹری کے مطابق انیس ستمبر سے القاعدہ سے وابستہ جنگجوؤں نے جوابی حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یہ جہادی ادلب صوبے کی زیادہ تر علاقوں پر قابض ہیں۔
عالمی طاقتوں کی کوشش ہے کہ شام میں قیام امن کی خاطر مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اسی مقصد کی خاطر جہاں بات چیت کے ذریعے شامی خانہ کی کے خاتمے کی کوشش جاری ہے، وہیں جہادیوں کے خلاف ایکشن بھی جاری ہے۔ یاد رہے کہ شام میں سینز فائر کے معاہدوں کے علاوہ محفوظ قرار دیے جانے والے علاقوں میں بھی جہادیوں کو کوئی چھوٹ نہیں جاتی۔
شام میں انسانی بحران کی تکلیف دہ صورتحال
فائربندی سے بھوک کے شکار پریشان حال شامیوں کو عارضی طور پر فائدہ ضرور ہو گا کیونکہ شام کے محصور علاقوں میں پھنسے انسانوں کی صورتحال المیے کی سی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
حلب کے بچے
شام میں حلب بین الاقوامی خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اب وہاں انخلاء کا عمل جاری ہے۔ یہ تباہ حال شہر جنگ کی ہولناکیوں کی علامت ہے۔ شہر کے مشرقی حصے میں نہ تو پانی ہے، نہ اشیائے خورد نوش اور نہ ادویات۔ عوام کی ایک بڑی تعداد کو سر پر چھت بھی میسر نہیں ہے۔ اس صورتحال میں اس شہر کے ایک لاکھ بچوں کو در در کی ٹھوکریں کھانا پڑ رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
چھ لاکھ انسان گھیرے میں
یہ تصویر مضایا کی ہے۔ اسی طرح کے اٹھارہ دیگر شہر بھی بیرونی دنیا سے کٹ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق محصور علاقوں میں چھ لاکھ افراد آباد ہیں، جو تنازعے کے فریقین کی وجہ سے اپنے اپنے علاقوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر علاقے اسد حکومت کے زیر قبضہ ہیں۔ دمشق حکومت کی اجازت کے بغیر ان علاقوں میں امددی اشیاء تک نہیں پہنچائی جا سکتیں اور اسد حکام سے اجازت لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
مزاحمت کی علامت
داریا ان اوّلین شہروں میں شامل ہے، جہاں سے 2011ء میں اسد حکومت کے خلاف مزاحمت کا آغاز ہوا تھا۔ دمشق حکومت نے سالوں تک اس شہر کو گھیرے میں لیے رکھا، جس کی وجہ سے داریا کے باسی بھوک و افلاس کا شکار ہو گئے۔ صورتحال سے تنگ آ کر اگست میں باغیوں نے ہتھیار ڈال دیے، جو ان کی ایک بڑی شکست تھی۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press
ہسپتالوں میں ہنگامی حالت
شام کے زیادہ تر ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج ممکن نہیں رہا۔ ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نامی تنظیم کے مطابق، ’’مرہم پٹی کا سامان تو ایک طرف ہسپتالوں میں ادویات تک موجود نہیں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے آپریشن تک کرنا ممکن نہیں رہا۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
کوئی جگہ محفوظ نہیں
گزشتہ پانچ مہینوں کے دوران حلب کے محصور مشرقی حصے کے آٹھوں ہسپتالوں کو یا تو نقصان پہنچا ہے یا پھر وہ تباہ ہو چکے ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق ابھی بھی کچھ ایسے ڈاکٹرز ہیں، جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ ایک ڈاکٹر کے بقول، ’’خود کو کہیں بھی محفوظ محسوس نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Leys
منقسم شہر
حلب حکومتی دستوں اور باغیوں کے مابین تقسیم ہے۔ باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی حصے میں حالات انتہائی خراب ہیں۔ اسد حکومت اور روس کی جانب سے روزانہ ہی اس حصے میں بمباری کی جاتی ہے اور روزانہ ہی کئی عمارتیں اور گھر کھنڈر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران حلب میں سینکٹروں عام شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Alhalbi
ہر شے کی قلت
حلب میں صرف باغیوں کے زیر اثر علاقوں میں ہی بنیادی اشیاء کی قلت نہیں ہے بلکہ حکومتی فورسز کے قبضے میں جو علاقے ہیں، وہاں کے باسی بھی ان سہولیات سے محروم ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
ویرانی کیوں ہے؟
فضائی حملوں کے ڈر سے حلب کے شہری گھر سے باہر نکلنے کی ہمت کم ہی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس شہر میں عام زندگی گزارنا اب ممکن نہیں رہا۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
ایک بڑی سی جیل
شام میں تازہ فائر بندی سے عام شہریوں کی زندگی میں تھوڑی سی آسانی ضرور پیدا ہوئی ہے۔ تاہم کسی کو یہ علم نہیں کے حالات کب تبدیل ہو جائیں۔ مقامی افراد کا خیال ہے کہ وہ ’’ایک بڑی سی جیل میں زندگی گزار رہے ہیں‘‘۔