شام میں ترک فوجی مشن ختم اور امریکی وزیر خارجہ کا دورہ
30 مارچ 2017امریکا میں رواں برس ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت شروع ہونے کے بعد، ریکس ٹِلرسن اعلیٰ ترین حکومتی اہلکار ہیں، جو ترکی کا دورہ کر رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ترک دارالحکومت ایسے وقت میں پہنچے ہیں، جب انقرہ حکومت نے ایک روز قبل یعنی انتیس مارچ کو خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں اپنا سات ماہ سے جاری فوجی مشن ختم کرنے کا اعلان کیا۔
ترک دارالحکومت انقرہ پہنچنے کے بعد ریکس ٹِلرسن نے وزیراعظم بن علی یلدرم کے علاوہ وزیر خارجہ مولود چاؤش آولو کے ساتھ بھی ملاقات کی ہے۔انہوں نے آج جمعرات ہی کے روز ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ بھی ملاقات کی ہے۔۔
امریکی وزارت خارجہ کے مطابق ٹِلرسن اور ترک وزیر اعظم نے خطے کی نازک صورت حال اور دو طرفہ اقتصادی تعلقات پر گفتگو کی۔ اس ملاقات میں امریکی وزیر خارجہ نے خطے میں ترکی کے کردار کو اہم قرار دیتے ہوئے شام اور عراق میں جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خاتمے پر بھی زور دیا۔
امریکی وزیر خارجہ کے اِس دورے میں بات چیت کے ایجنڈے پر شام کی موجودہ صورت حال کے ساتھ ساتھ سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کا الرقہ کی بازیابی کا آپریشن فوقیت حاصل کیے ہوئے ہے۔ سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کو امریکا کی بھرپور عملی و سیاسی حمایت حاصل ہے۔
ترکی نے امریکا سے کہا تھا کہ وہ الرقہ کی بازیابی کے عسکری آپریشن میں شامل ہونے کو تیار ہے اگر اُس میں وائی پی جے کے عسکریت پسند شامل نہ ہوں۔ امریکا نے اس ترک تجویز کے ساتھ اتفاق نہیں کیا تھا۔ ترک ٹیلی وژن ای ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے ترک وزیراعظم بن علی یلدرم کا کہنا ہے کہ الرقہ آپریشن میں ترک شمولیت کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ساری صورت حال کو امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ زیر بحث لایا گیا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ امریکا کے سابق صدر باراک اوباما کے دور سے واشنگٹن اور انقرہ حکومتوں کے تعلقات میں کھچاؤ پیدا ہونا شروع ہوا تھا۔ اُس کی بنیادی وجہ کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس (YPG) کو ترکی ایک دہشت گرد تنظیم خیال کرتا ہے جب کہ امریکی حکومت اِسے ایک قابلِ اعتماد دوست کا درجہ دیتا ہے۔ ترکی کے مطابق شامی کردوں کی تنظیم وائی پی جے سن 1984 سے ترک میں کالعدم کرد ورکرز پارٹی کی عسکری مہم کے ساتھ وابستہ ہے۔