شام میں ترک پیش قدمی، داعش کےخلاف لڑائی مشکل بنا رہی ہے
25 نومبر 2016خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق الباب کے علاقے پر قبضے کے لیے ترک فورسز کی پیش قدمی داعش کے خلاف لڑنے والی قوتوں میں دراڑیں ڈال رہی ہے۔ اگر ترکی الباب پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا، تو ترک سرحد کے قریب شامی علاقوں میں ترکی کے قدم مضبوط ہو جائیں گے، تاہم یہ ترک کارروائیاں شامی تنازعے میں شامل دیگر فریقین اور اسلامک اسٹیٹ کے خلاف برسر اقتدار دیگر قوتوں کے درمیان خلیج پیدا کر رہی ہیں۔
شامی صدر بشارالاسد واضح انداز میں کہہ چکے ہیں کہ انہیں شامی سرزمین پر ترک فورسز کی کارروائیاں قبول نہیں۔ جمعرات 24 نومبر کو الباب ہی کے علاقے کے قریب شامی حکومتی طیاروں کے حملے میں تین ترک فوجی مارے گئے، جب کہ شامی فضائی دفاع کے نظام کے ذریعے ترک طیاروں کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ وہ شامی علاقوں کا رخ نہ کریں۔
اسی طرح ترکی کے حمایت یافتہ شامی جنگجو ان کرد فائٹرز سے جھڑپوں میں مصروف ہیں، جنہیں امریکی پشت پناہی حاصل ہے۔ امریکی حکومت کرد فائٹرز کو داعش کے خلاف جاری کارروائیوں میں انتہائی اہم قرار دیتی ہے اور اسی تناظر میں واشنگٹن حکومت ان کرد فائٹرز کو تربیت اور عسکری ساز و سامان فراہم کر رہی ہے۔ یہ کرد فورسز اسلامک اسٹیٹ کے دارالحکومت کہلانے والے الرقہ کے علاقے کی جانب پیش قدمی میں مصروف ہیں۔
ترکی کی کوشش ہے کہ الباب پر قبضہ کر کے شامی کرد باغیوں کی اس پٹی کے درمیان رابطہ منقطع کیا جائے، جو انہوں نے ترک سرحد کے قریب شامی سرزمین پر اپنے قبضے میں لے رکھی ہے۔ ترکی کو خدشات ہیں کہ اگر کردوں نے شام میں کسی بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا، تو خود ترکی کے اندر موجود کردوں کا خطہ خطرے میں پڑ جائے گا اور یہ کرد کسی الگ ریاست کے حصول کے لیے اپنی تگ و دو تیز کر سکتے ہیں۔
ترکی کی کوشش ہے کہ ترک سرحد کے قریب شامی سرزمین پر ایک محفوظ علاقہ قائم کیا جا سکے، جہاں بشارالاسد مخالف قوتوں کو تربیت فراہم کی جائے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور متعدد خلیجی ریاستیں چاہتی ہیں کہ شامی صدر بشارالاسد کو اقتدار سے الگ کیا جائے۔
ماہرین کے مطابق اسی تناظر میں ترکی ایک جانب بشارالاسد مخالف فورسز کی حمایت کر رہا ہے، تو دوسری جانب اس کی ترجیح ہے کہ کرد فورسز کی پیش قدمی کو بھی روکا جا سکے، اسی لیے داعش کے خلاف یہ تمام فورسز اب تک یک سو نہیں ہو پائی ہیں۔