1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی تنازعے میں تین لاکھ سے زائد شہری ہلاک، اقوام متحدہ

29 جون 2022

اقوام متحدہ نے آٹھ مختلف ذرائع پر مبنی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ شام میں جاری تنازعے میں یکم مارچ 2011 سے 31 مارچ 2021 کے درمیان 306887 شہری مارے گئے۔ جبکہ ایک کیمپ میں 100سے زائد قیدی ہلاک ہو گئے۔

Syrien Nach dem IS-Angriff auf Gefängnis in Al-Hassaka
تصویر: AFP/Getty Images

اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل کے دفتر نے جنیوا میں منگل کے روز یہ رپورٹ جاری کی۔ اس میں ہلاکتوں کی تعداد سابقہ اعدادوشمار کے مقابلے کہیں زیادہ ہے۔

نئی رپورٹ کے مطابق تشدد زدہ ملک شام میں پچھلے دس برسوں کے دوران ہر روز کم از کم 83 شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ ہلاکتوں کی یہ مجموعی تعداد تصادم شروع ہونے سے قبل کی شامی آبادی کے 1.5 فیصد کے برابر ہے۔

ہلاکتوں کے گہرے اور دیرپا اثرات

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی کمشنر میشیل بیچلیٹ نے کہا کہ ہلاکتوں کے حوالے سے یہ رپورٹ شہریوں کی ہلاکتوں کے دستیاب اعدادو شمارکے تجزیہ اور ٹھوس جائزے پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا،''اس رپورٹ میں تصادم سے متعلق ہلاکتوں کے اعدادو شمار محض ایک تعداد نہیں ہے بلکہ ایک ایک فرد کی نمائندگی کرتا ہے۔306887 شہریوں میں سے ہر ایک کی ہلاکت کا ان کے خاندان اور جس برادری سے وہ تعلق رکھتے تھے، اس پر انتہائی گہرے اور دیرپا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔‘‘

تصویر: SANA/AP/picture alliance

اقوام متحدہ کی طرف سے جاری اس رپورٹ میں تصادم کے دوران ہلاک ہونے والے فوجیوں یاعسکریت پسندوں کی تعداد شامل نہیں ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ ان کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ اس رپورٹ میں ایسے افراد کی ہلاکتوں کی تعداد بھی شامل نہیں ہے جو مارے گئے اور ان کے گھر والوں نے حکام کو مطلع کیے بغیر ہی ان کی تدفین کردی۔

یہ رپورٹ آٹھ مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ ان میں دمشق مرکز برائے مطالعات حقوق انسانی، سینٹر فار اسٹیٹسٹکس اینڈ ریسرچ، شام، شامی نیٹ ورک برائے انسانی حقوق، سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس اور وائلیشن ڈاکیومینٹیشن سینٹر شامل ہیں۔

رپورٹ میں 143350 شہریوں کی ہلاکتوں کی انفرادی طورپر تفصیلات دی گئی ہیں۔ اس میں ان کے مکمل نام، ہلاکت کی تاریخ اور مقام بھی درج ہیں۔

تصادم کا آغاز کیسے ہوا؟

شام میں تصادم کا سلسلہ مارچ 2011 میں صدر بشارالاسد حکومت کے خلاف پرامن احتجاج سے شروع ہوا۔ جلد ہی یہ احتجاجی مظاہرے ملک کے مختلف حصوں تک پھیل گئے اور اس نے کثیر رخی نوعیت اختیار کرلیا۔ بعد میں عالمی طاقتیں بھی اس میں ملوث ہوگئیں۔

تصادم نے جلد ہی خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلی جس میں لاکھوں افراد مارے گئے اور بڑے پیمانے پر تباہی اور بربادی ہوئی۔

تصویر: Ghaith Alsayed/AP/picture alliance

حراستی کیمپ میں ہلاکتیں

اقوام متحدہ نے منگل کے روز ہی ایک علیحدہ رپورٹ میں کہا کہ شام میں ایک کیمپ میں پچھلے 18ماہ کے دوران 100سے زائد افراد ہلاک ہوگئے، ان میں خواتین بھی شامل تھیں۔

کردوں کے کنٹرول والے شمالی مشرقی علاقے الہول میں ایک عارضی حراستی کیمپ قائم کیا گیا ہے۔ جہاں اب بھی 56000 افراد قید ہیں۔ ان میں سے بیشتر شامی اورعراقی شہری ہیں اور ان میں سے بعض کا تعلق داعش سے ہے۔

شام میں اقوام متحدہ کے رابطہ کارعمران رضا کا کہنا تھا کہ الہول کیمپ انتہائی غیر محفوظ ہے۔ ''یہ انتہائی تکلیف دہ جگہ ہے اورغیرمحفوظ مقام بن گیا ہے۔‘‘

اقوام متحدہ انسانی حقوق کمشنر میشیل بیچلیٹ کا کہنا تھا کہ تازہ ترین رپورٹ اور جائزوں سے شام میں تصادم کی سنگینی اور اس کی وسعت کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

 ج ا/ رب  (ڈی پی اے، روئٹرز، اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں