1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں جنگی جرائم، انصاف کی امید مسلسل کم ہوتی ہوئی

مقبول ملک15 مئی 2015

شام کے چار سالہ خونریز تنازعے میں جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو مستقبل میں سزائیں سنائے جانے کا امکان ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ مسلسل کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس خانہ جنگی میں اب تک قریب سوا دو لاکھ انسان مارے جا چکے ہیں۔

تصویر: DW/Y. Sayman

ہالینڈ کے شہر دی ہیگ سے جمعہ پندرہ مئی کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ماہرین کے مطابق آج یہ امکان ماضی کے کسی بھی دن کے مقابلے میں کہیں کم ہے کہ مشرق وسطٰی کی ریاست شام میں جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں میں سے کسی کو بھی کبھی کسی بین الاقوامی عدالت کی طرف سے سزا سنائی جا سکے گی۔

اس کا سبب یہ ہے کہ ایسے جنگی جرائم کے اس کئی سالہ تنازعے کے دوران اب تک ’پہاڑ بنتے جا رہے‘ جتنے بھی شواہد جمع ہوئے یا ہو سکتے تھے، وہ اس خانہ جنگی کے فریقین یا اس ریاست میں مسلسل نا گفتہ بہ صورت حال کے باعث تباہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی سیاست بھی اب تک دستیاب شواہد کی روشنی میں عملی طور پر کوئی کارروائی کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتی۔

اس موضوع پر اے ایف پی نے اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں اور گروپوں نے بڑی محنت سے ایسے بہت سے جرائم کے دستاویزی ریکارڈ تیار کیے ہیں، جن کا اس خانہ جنگی کے دوران شام میں ارتکاب کیا گیا ہے۔ مغربی دنیا کے حمایت یافتہ کمیشن برائے بین الاقوامی انصاف اور احتساب CIJA کے مشہور تفتیش کاروں پر مشتمل ایک کمیٹی نے اسی ہفتے بدھ کے روز کہا تھا کہ اس تنظیم کے پاس ایسے جرائم کے کافی شواہد موجود ہیں، جن کی بنیاد پر شامی صدر بشار الاسد اور دمشق میں اعلٰی حکومتی شخصیات کے خلاف عدالتی کارروائی کر کے انہیں سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔

اس تناظر میں سی آئی جے اے کے پاس موجود دستاویزات میں پہلی بار یہ بھی کہا گیا ہے کہ شام میں جنگی جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف ’مقدمات کی سماعت شروع کرنے میں شواہد کی حد تک تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن عالمی برادری اس پر آمادہ نظر نہیں آتی‘۔ بین الاقوامی انصاف اور احتساب کے اس کمیشن کے پاس جتنے بھی شواہد ہیں، انہیں جمع کرنے والوں میں عالمی عدالتوں کے کئی سابق تفتیشی ماہرین بھی شامل ہیں۔

شواہد جمع کرنے والوں میں عالمی عدالتوں کے کئی سابق تفتیشی ماہرین بھی شامل ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

اس بارے میں برطانوی دارالحکومت لندن میں مقیم بین الاقوامی قانون کے معروف ماہر مارک کَیرسٹن نے اے ایف پی کو بتایا، ’’بہت ممکن ہے کہ آج تک کسی بھی دوسرے مسلح تنازعے کو وسیع تر مظالم، جنگی جرائم اور انسانیت کے ‌خلاف جرائم کے حوالے سے تفتیش کاروں کی اتنی زیادہ توجہ نہ ملی ہو، جتنی کہ شام کے خونریز تنازعے کو اور اس کے بعد حصول انصاف کا عمل بھی اس حد تک کم رہا ہو جتنا کہ اس تنازعے میں۔‘‘

اے ایف پی کے مطابق دنیا بھر میں انتہائی سنجیدہ نوعیت کے جرائم پر فیصلے بین الاقوامی فوجداری عدالت ICC کی طرف سے سنائے جاتے ہیں۔ لیکن شام اس عدالت کی قانونی عملداری میں نہیں آتا کیونکہ وہ اس عال‍می عدالت کا رکن نہیں ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ملک روس شام میں اسد حکومت کا سب سے بڑا اتحادی ہے، جو اس تنازعے سے متعلق آئی سی سی کو تحقیقات کا اختیار دینے کی کسی بھی کوشش کو ویٹو کر کے ناکام بنا دے گا۔

ایسے میں محض سیاسی وجوہات ہی وہ سب سے بڑا سبب ہیں کہ کوئی بھی عالمی عدالت آج تک کسی ایسے مقدمے کی سماعت کرنے اور اپنا فیصلہ سنانے کے قابل نظر نہیں آئی، جس کا تعلق شام کی خانہ جنگی سے ہو۔ یہ کڑوا سچ اس لیے اور بھی تکلیف دہ ہے کہ شام کا خونریز تنازعہ اب تک دو لاکھ بیس ہزار سے زائد انسانوں کی جان لے چکا ہے اور مرنے والوں میں کم از کم سڑسٹھ ہزار عام شہری اور گیارہ ہزار بچے بھی شامل ہیں۔

دی ہیگ میں قائم TMC ایسر انسٹیٹیوٹ کے سینیئر محقق اولیویئر رِبےلِنک کے بقول شام میں جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو ان کے اعمال کا جواب دہ بنانے سے پہلے بین الاقوامی برادری کو دمشق میں حکومت تبدیل ہونے تک لازمی انتظار کرنا ہی پڑے گا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں