شام کے تین صوبوں میں جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔ اس معاہدے کو امریکا، روس اور اردن کی حمایت حاصل ہے۔ امریکی صدر نے ہیمبرگ میں روسی صدر سے ملاقات کے دوران فائربندی معاہدے کی شرائط پر اتفاق کیا تھا۔
اشتہار
اس جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد اتوار کے روز بین الاقوامی وقت کے مطابق صبح نو بجے شروع ہوا۔ جنوب مغرب میں واقع جن صوبوں میں فائربندی کی گئی ہے، ان میں درعا، القنيطرہ اور السويدا شامل ہیں۔
لڑائی میں وقفے اور خونریز حملوں میں کمی کے لیے ’ڈی ایسکیلیشن ڈیل‘ دو روز پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مابین جی ٹوئنٹی کے سربراہی اجلاس کے دوران ہونے والی ایک ملاقات میں طے پائی تھی۔
روس اردن کی سرحد کے ساتھ ساتھ واقع ان صوبوں میں جنگ بندی کی نگرانی کے لیے اپنے ملٹری پولیس اہلکار تعینات کرے گا اور اس دوران اس کا امریکا اور اردن کے ساتھ بھی تعاون جاری رہے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر ایچ آر مِک ماسٹر کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’امریکا داعش کو شکست دینے کے لیے پرعزم ہے، شام کے تنازعے کا خاتمہ چاہتا ہے اور تکالیف کو کم کرتے ہوئے لوگوں کی اپنے گھروں میں واپسی کو ممکن بنانا چاہتا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’یہ معاہدہ مشترکہ مقاصد حاصل کرنے کی طرف ایک اہم پیش رف ہے۔‘‘
نئے امن مذاکرات
بین الاقوامی رہنما اس سے پہلے بھی شام کے مختلف علاقوں میں جنگ بندی کے متعدد معاہدے کر چکے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا معاہدہ نہیں تھا، جس سے مشرق وسطیٰ کے اس ملک میں جنگ اور لڑائی کا مکمل خاتمہ ممکن ہو سکتا۔ اب اس ملک میں چھ سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے ایک مرتبہ پھر پیر کے روز سے جنیوا میں امن مذاکرات کا آغاز ہو رہا ہے۔
شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب کے نائب رمزی عِزالدین رمزی کی طرف سے اس معاہدے کی تعریف کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ صحیح سمت کی طرف ایک صحیح پیش رفت ہے اور اس سے سفارتی کوششوں کو مدد حاصل ہو گی۔‘‘
ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا، ’’اس پیش رفت سے مذاکرات کے لیے ماحول سازگار ہوا ہے۔‘‘ ان کا امید ظاہر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس طرح کے معاہدے ملک کے دیگر حصوں میں بھی کیے جا سکتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ابھی تک اس جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد جاری ہے اور ان صوبوں میں صورتحال پر سکون ہے۔
شام میں انسانی بحران کی تکلیف دہ صورتحال
فائربندی سے بھوک کے شکار پریشان حال شامیوں کو عارضی طور پر فائدہ ضرور ہو گا کیونکہ شام کے محصور علاقوں میں پھنسے انسانوں کی صورتحال المیے کی سی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
حلب کے بچے
شام میں حلب بین الاقوامی خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اب وہاں انخلاء کا عمل جاری ہے۔ یہ تباہ حال شہر جنگ کی ہولناکیوں کی علامت ہے۔ شہر کے مشرقی حصے میں نہ تو پانی ہے، نہ اشیائے خورد نوش اور نہ ادویات۔ عوام کی ایک بڑی تعداد کو سر پر چھت بھی میسر نہیں ہے۔ اس صورتحال میں اس شہر کے ایک لاکھ بچوں کو در در کی ٹھوکریں کھانا پڑ رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
چھ لاکھ انسان گھیرے میں
یہ تصویر مضایا کی ہے۔ اسی طرح کے اٹھارہ دیگر شہر بھی بیرونی دنیا سے کٹ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق محصور علاقوں میں چھ لاکھ افراد آباد ہیں، جو تنازعے کے فریقین کی وجہ سے اپنے اپنے علاقوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر علاقے اسد حکومت کے زیر قبضہ ہیں۔ دمشق حکومت کی اجازت کے بغیر ان علاقوں میں امددی اشیاء تک نہیں پہنچائی جا سکتیں اور اسد حکام سے اجازت لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
مزاحمت کی علامت
داریا ان اوّلین شہروں میں شامل ہے، جہاں سے 2011ء میں اسد حکومت کے خلاف مزاحمت کا آغاز ہوا تھا۔ دمشق حکومت نے سالوں تک اس شہر کو گھیرے میں لیے رکھا، جس کی وجہ سے داریا کے باسی بھوک و افلاس کا شکار ہو گئے۔ صورتحال سے تنگ آ کر اگست میں باغیوں نے ہتھیار ڈال دیے، جو ان کی ایک بڑی شکست تھی۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press
ہسپتالوں میں ہنگامی حالت
شام کے زیادہ تر ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج ممکن نہیں رہا۔ ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نامی تنظیم کے مطابق، ’’مرہم پٹی کا سامان تو ایک طرف ہسپتالوں میں ادویات تک موجود نہیں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے آپریشن تک کرنا ممکن نہیں رہا۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
کوئی جگہ محفوظ نہیں
گزشتہ پانچ مہینوں کے دوران حلب کے محصور مشرقی حصے کے آٹھوں ہسپتالوں کو یا تو نقصان پہنچا ہے یا پھر وہ تباہ ہو چکے ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق ابھی بھی کچھ ایسے ڈاکٹرز ہیں، جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ ایک ڈاکٹر کے بقول، ’’خود کو کہیں بھی محفوظ محسوس نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Leys
منقسم شہر
حلب حکومتی دستوں اور باغیوں کے مابین تقسیم ہے۔ باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی حصے میں حالات انتہائی خراب ہیں۔ اسد حکومت اور روس کی جانب سے روزانہ ہی اس حصے میں بمباری کی جاتی ہے اور روزانہ ہی کئی عمارتیں اور گھر کھنڈر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران حلب میں سینکٹروں عام شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Alhalbi
ہر شے کی قلت
حلب میں صرف باغیوں کے زیر اثر علاقوں میں ہی بنیادی اشیاء کی قلت نہیں ہے بلکہ حکومتی فورسز کے قبضے میں جو علاقے ہیں، وہاں کے باسی بھی ان سہولیات سے محروم ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
ویرانی کیوں ہے؟
فضائی حملوں کے ڈر سے حلب کے شہری گھر سے باہر نکلنے کی ہمت کم ہی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس شہر میں عام زندگی گزارنا اب ممکن نہیں رہا۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
ایک بڑی سی جیل
شام میں تازہ فائر بندی سے عام شہریوں کی زندگی میں تھوڑی سی آسانی ضرور پیدا ہوئی ہے۔ تاہم کسی کو یہ علم نہیں کے حالات کب تبدیل ہو جائیں۔ مقامی افراد کا خیال ہے کہ وہ ’’ایک بڑی سی جیل میں زندگی گزار رہے ہیں‘‘۔