’شام میں جنگ بندی‘ کیا کوئی امید ابھی باقی ہے؟
16 اکتوبر 2016شام کے موضوع پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف کے مابین ہونے والے مذاکرات میں انتہائی معمولی سی پیش رفت ہوئی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ جنگ بندی کے حوالے سے کچھ نئی تجاویز سامنے آئی ہیں،’’اس سلسلے میں اگلا رابطہ بہت جلد ہونا چاہیےکیونکہ یہ معاملہ فوری توجہ چاہتا ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ مزید کوئی پیچیدگی جنم لے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ لوزان مذاکرات کاسلسلہ پیر کے روز بھی جاری رہے گا،’’تاہم یہ بات چیت وزراء کی سطح کی نہیں ہو گی بلکہ اس میں تمام فریق ممالک کے اعلی نمائندے شرکت کریں گے اور معاملات کو آگے بڑھایا جائے گا۔‘‘
لوزان مذاکرات میں امریکا اور روس کے علاوہ ایران، عراق، قطر، اردن، سعودی عرب، مصر اور ترکی کے نمائندے بھی شریک تھے۔ جان کیری اپنے دیگر یورپی ساتھیوں کو لوزان میں ہونے والی بات چیت کی تفصیلات سے آگاہ کرنے کے لیے لندن روانہ ہو گئے ہیں، جہاں وہ برطانوی، فرانسیسی، اطالوی اور جرمن وزرائے خارجہ سے ملاقاتیں کریں گے۔ یہ چاروں ممالک شام کے حوالے سے قائم بین الاقوامی گروپ کے رکن بھی ہیں۔
سیرگئی لاوروف کے بقول جتنی جلدی ممکن ہو سکے شام کے لیے سیاسی عمل شروع کر دینا چاہیے۔ کیری اور لاوروف کے مابین یہ ملاقات پانچ گھنٹوں تک جاری رہی۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی کوشش تھی کہ شام میں خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں تیزی لائے جائے اور اس تنازعے کے فریقین کو راضی کیا جائے کہ وہ گزشتہ ماہ طے پانے والے امن معاہدے پر دوبارہ سے عمل کریں۔ کیری اپنی اس کوشش میں تو ناکام ہو گئے ہیں تاہم اس دوران وہ امن مذاکرات کو بحال کرانے کی اپنی کوشش میں ضرور کامیاب ہو گئے ہیں۔
ابھی گزشتہ دنوں ہی روس کی جانب سے حلب میں دوبارہ بمباری شروع کیے جانے کے بعد امریکا نے شام کے تنازعے پر ماسکو حکومت سے تمام تر روابط ترک کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ان دنوں ممالک کا ایک مرتبہ پھر مذارات کی میز پر لوٹنا جنگ بندی کے حوالے سے امید کی ایک کرن ہے۔