روس اور شام نے کہا ہے کہ شام میں ایک فوجی تنصیب پر تازہ میزائل حملے اسرائیلی فورسز نے کیے ہیں۔ شامی میڈیا کے مطابق اس کارروائی کے نتیجے میں چودہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے شامی سرکاری ٹیلی وژن کے حوالے سے بتایا ہے کہ پیر کی علی الصبح حمص میں واقع ایک فوجی چھاؤنی کو راکٹ حملوں سے نشانہ بنایا گیا۔
روسی وزارت دفاع نے الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیلی فوج کے دو ایف پندرہ جنگی طیاروں نے شامی فضائی حدود کی خلاف ورزی کیے بغیر یہ کارروائی لبنانی فضائی حدود سے ہی سر انجام دی۔ شامی حکام کے مطابق حمص کی ایک ایئر بیس پر علی الصبح ہوئے اس حملے کے نتیجے میں چودہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
شامی فوجی ذرائع نے بھی کہا ہے کہ یہ حملے اسرائیلی فضائیہ نے کيے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ شامی فضائی ڈیفنس نظام نے پانچ گائیڈڈ میزائلوں کو ہوا میں ہی تباہ کر دیا جبکہ تین میزائل حمص کے نواح میں واقع T4 ایئر فیلڈ پر گرے۔
امریکا اور فرانس نے ان حملوں میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے تاہم اسرائیل نے ابھی تک اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ یاد رہے کہ اسرائیلی فضائیہ ماضی میں بھی اس ایئر فیلڈ کو نشانہ بنا چکی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اس حملے کے بعد شامی فوج فعال ہو گئی اور صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شامی حکومت نے اس کارروائی کے نتیجے میں ہوئی ہلاکتوں کی تعداد نہیں بتائی ہے۔
تاہم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بتایا ہے کہ اس تازہ حملے کے نتیجے میں چودہ افراد مارے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں شامی، ایشیائی اور عرب جنگجو بھی شامل ہیں، جو صدر بشار الاسد کے اتحادی تھے۔
آبزرویٹری کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے بتایا، ’’ہلاک شدگان میں کم ازکم تین شامی ہیں۔ ان میں ایرانی بھی شامل ہیں۔‘‘ انہوں نے البتہ یہ نہیں بتایا کہ ہلاک ہونے والے ایرانی آیا ریولوشنری گارڈ تھے؟ رامی کے بقول اس فضائی حملے کے نتیجے میں حمص ایئر بیس کا کچھ حصہ بھی متاثر ہوا ہے۔ لبنانی میڈیا کے مطابق شامی سرحد سے متصل علاقوں میں سکونت پذیر رہائشیوں نے پیر کی صبح جیٹ طیاروں کی آوازیں سنی تھیں۔
یہ پیشرفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرقی غوطہ میں مبینہ کیمیائی حملے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے گزشتہ روز ہی کہا تھا کہ صدر بشار الاسد کو اس کی بھاری قیمت چکانا ہو گا۔ تاہم پینٹا گون نے کہا ہے کہ فی الحال شام میں امریکا نے فضائی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ دوسری طرف فرانس نے بھی کہا ہے کہ اس کی فورسز اس کارورائی میں ملوث نہیں ہیں۔
ادھر شامی علاقے مشرقی غوطہ میں باغیوں کے زیر قبضہ شہر دوما میں ہوئے مبینہ کیمیائی حملے پر عالمی برداری نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ یورپی یونین، برطانیہ، فرانس اور امریکا کے علاوہ کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے بھی اس حملے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ متوقع طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پیر کے دن اس معاملے پر مشاورت کرے گی۔
یورپی یونین نے روس پر زور دیا ہے کہ وہ شام پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے اور مستقبل میں ایسے حملوں کے تدارک کی کوشش کرے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس مبینہ حملے کے لیے روس اور ایران کو قصوروار قرار دیا ہے۔
ہفتے کے دن ہوئی اس کارروائی کے نتیجے میں انچاس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ روس اور شام نے ایسے الزامات مسترد کر دیے کہ کیمیائی حملہ کیا گیا ہے۔ ماسکو حکومت کے مطابق اس الزام کی آڑ میں اگر کوئی فوجی کارروائی کی گئی تو اس کے ’سنگین نتائج‘ برآمد ہو گے۔
ع ب / ع س / خبر رساں ادارے
’شام کی وہ دوزخ، جس کا ایندھن بچے ہیں‘
شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج، باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں چار لاکھ سے زائد شہری محصور ہیں اور تقریبا ساڑھے پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
مشرقی غوطہ میں طبی امداد فراہم کرنے والی تنظیم سیرئین سول ڈیفنس نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اسد کی حامی فورسز نے بمباری کے دوران کلورین گیس کا استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں بچے ہلاک ہو رہے ہیں اور متاثرہ افراد کو سانس لینے مین دشواری کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
آزاد ذرائع سے کلورین گیس کے استعمال کی فی الحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ روس نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ اس کی حمایت یافتہ فورسز یہ زیریلی گیس استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے جنگ بندی پر فوری عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین پر قائم اس ’جہنم کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے‘۔
تصویر: picture alliance/AA/Q. Nour
زیر محاصرہ شامی علاقے مشرقی غوطہ میں شدید فضائی حملوں کے بعد وہاں پھنسے عام شہری امداد اور طبی مدد کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے فائربندی کے مطالبے کے باوجود علاقے میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
گزشتہ ایک ہفتے میں شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی جانب سے مشرقی غوطہ پر کی جانے والی شدید بمباری کے نتیجے میں اب تک پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز سلامتی کونسل نے شام میں 30 روزہ فائربندی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ فائربندی پر عمل درآمد ’بلاتاخیر‘ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
سیریئن آبزرویٹری کے مطابق سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود روسی طیاروں نے ہفتے کے ہی روز مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ آبزرویٹری نے مزید بتایا کہ ہلاک شدگان میں 127 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
شامی خانہ جنگی سے متعلق صلاح و مشورے کے لیے آج پیر کے روز یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک اہم اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ وزرائے خارجہ یہ طے کریں گے کہ کس طرح مشرقی غوطہ میں ظلم و تشدد کے شکار شہریوں کی بہتر طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/B.Khabieh
سلامتی کونسل کی قرارداد میں تیس روزہ فائر بندی کی بات کی گئی ہے۔ اس دوران امدادی سامان کی ترسیل اور شدید زخمیوں کو متاثرہ علاقوں سے باہر نکالا جائے گا۔ اس قرارداد میں شامی باغیوں کے گڑھ مشرقی غوطہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
مشرقی غوطہ دو مسلم گروپوں میں منقسم ہے اور وہاں شام میں القاعدہ کی مقامی شاخ بھی سرگرم ہے۔ روس نے باغیوں کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کی تھی تاکہ وہاں موجود باغی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل جائیں، بالکل اسی طرح جیسا 2016ء میں حلب میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم غوطہ میں تمام باغی تنظیموں نے اس روسی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AA/A. Al-Bushy
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر امانویل ماکروں نے اتوار کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ان رہنماؤں نے پوٹن سے اپیل کی کہ وہ شامی حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے فائربندی پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al-Bushy
اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق ان حملوں کے دوران اس علاقے میں کم از کم پانچ ہسپتالوں پر بھی بمباری کی گئی۔ ان حملوں کے بعد کئی ہسپتال معمول کے مطابق کام کرنے کے قابل نہ رہے۔
تصویر: picture alliance/AA/K. Akasha
ان حملوں کے حوالے سے شامی حکومتی افواج کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن اسد حکومت اکثر یہی کہتی ہے کہ سرکاری افواج کی طرف سے صرف باغیوں اور جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/Syrian Civil Defense White Helmets
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک فرانس نے شام میں ان تازہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔