شام میں دو سو امریکی فوجی تعینات رہیں گے، وائٹ ہاؤس
22 فروری 2019
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ وہ شام سے امریکی افواج کی واپسی کے بعد قریب 200 فوجیوں کو بطور امن فورس وہاں تعینات رکھا جائے گا۔ یہ فیصلہ یورپی اتحادیوں کو شام میں اپنی فورسز بھیجنے پر راضی کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔
اشتہار
ٹرمپ انتظامیہ نے کہا ہے کہ خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں قریب دو سو امریکی فوجی متعین رہیں گے اور بقیہ کو وہاں سے واپس بلا لیا جائے گا۔ اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کی خاتون ترجمان سارہ ساندرز کی جانب سے ایک مختصر بیان جاری کیا گیا جس کے مطابق، ’’قریب 200 فوجیوں پر مشتمل ایک چھوٹا امن مشن شام میں کچھ وقت کے لیے تعینات رہے گا۔‘‘
یہ اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے درمیان ہونے والی ایک ٹیلی فونک بات چیت کے بعد سامنے آیا۔ سارہ ساندرز کے مطابق دونوں صدور نے ایک ممکنہ سیف زون قائم کرنے کی کوشش جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
رپبلکن پارٹی کے سینیئر سینیٹر لنڈزی گراہم نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ فوجی شام میں استحکام اور توازن کا باعث ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی فوجی یقینی طور پر شام میں ایرانی سرگرمیوں پر بھی نگاہ رکھ سکیں گے۔ گزشتہ برس دسمبر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں تعینات قریب دو ہزار امریکی فوجیوں کے انخلا کا اچانک اعلان کر کے اتحادیوں کو حیران کر دیا تھا۔
شام میں حملے کیسے کیے گئے؟
امریکا، برطانیہ اور فرانس نے شام پر دمشق کے نواحی قصبے دوما میں کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال پر فضائی حملے کیے۔ اس پورے معاملے کو تصاویر میں دیکھیے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Ammar
کیمیائی ہتھیاروں کے مراکز پر حملے
امریکا، فرانس اور برطانیہ نے شامی دارالحکومت دمشق اور حمص شہر میں کیمیائی ہتھیاروں کے حکومتی مراکز کو نشانہ بنایا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Ammar
برطانوی لڑاکا طیارے ٹورناڈو
امریکا، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے میزائلوں کے علاوہ لڑاکا طیاروں نے بھی اپنے اہداف کو نشانہ بنایا۔ حکام کے مطابق اس پورے مشن میں شریک تمام طیارے اپنی کارروائیاں انجام دینے کے بعد بہ حفاظت لوٹ آئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Matthews
کیمیائی حملے پر سخت ردعمل
امریکا، فرانس اور برطانیہ نے دوما میں مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا موثر جواب دیا جائے گا تاکہ مستقبل میں ایسے حملے نہ ہوں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Matthews
کیمیائی ہتھیاروں کا تحقیقی مرکز تباہ
یہ تصویر دمشق کے نواح میں قائم اس تحقیقی مرکز کی ہے، جہاں امریکی حکام کے مطابق کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق تحقیق جاری تھی۔ اس عمارت پر کئی میزائل لگے اور یہ عمارت مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
کوئی شخص ہلاک یا زخمی نہیں ہوا
امریکی حکام کے مطابق ان حملوں میں کسی شخص کے ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاعات نہیں ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں کا مقصد شامی حکومت گرانا نہیں بلکہ اس کی کیمیائی ہتھیاروں کی صلاحیت پر وار کرنا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Ammar
سلامتی کونسل منقسم
ان حملوں کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں روس کی جانب سے ان حملوں کی مذمت سے متعلق قرارداد پیش کی گئی، جسے سلامتی کونسل نے مسترد کر دیا۔ شام کے موضوع پر سلامتی کونسل میں پائی جانے والی تقسیم نہایت واضح ہے۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Muzi
تحمل سے کام لینے کی اپیل
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے سلامتی کونسل کے رکن ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اشتعال انگیزی کی بجائے تحمل کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے دوما میں کیمیائی حملے کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ شامی تنازعے کا واحد حل سیاسی مذاکرات سے ممکن ہے۔
تصویر: Reuters/E. Munoz
روس کی برہمی
شام پر امریکی، فرانسیسی اور برطانوی حملوں پر روس نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ’ناقابل‘ قبول قرار دیا۔ اس سے قبل روس نے دھمکی دی تھی کہ اگر شام میں تعینات کوئی روسی فوجی ان حملوں کا نشانہ بنا، تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
تصویر: Reuters/E. Munoz
جرمنی عسکری کارروائی کا حصہ نہیں بنا
جرمن حکومت نے شام میں عسکری کارروائی کا حصہ نہ بننے کا اعلان کیا۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے تاہم کہا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر امریکا، برطانیہ اور فرانس کی یہ کارروائی قابل فہم ہے۔ جرمنی اس سے قبل عراق جنگ میں بھی عسکری طور پر شامل نہیں ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappe
امریکی فورسز تیار ہیں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان حملوں کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مستقبل میں شامی فورسز نے دوبارہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا، تو امریکی فورسز دوبارہ کارروائی کے لیے ہردم تیار ہوں گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan
10 تصاویر1 | 10
اس فیصلے پر اپوزیشن کے علاوہ صدر ٹرمپ کی اپنی سیاسی جماعت ری پبلکن پارٹی کے ارکان کی طرف سے بھی تنقید کی گئی تھی جبکہ اسی باعث وزیر دفاع جِم میٹس نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
فیصلے کے مخالفین کا کہنا تھا کہ اس طرح اچانک شام سے امریکی افواج کی واپسی کے بعض نا قابل اندازہ نتائج مرتب ہو سکتے ہیں جن میں ترکی کی طرف سے امریکی حمایت یافتہ کُرد فورسز کے خلاف حملے کے علاوہ داعش کے ایک بار پھر قوت پکڑنے سے نتائج شامل ہو سکتے ہیں۔
امریکا کی طرف سے شام میں اپنے فوجیوں کی ایک محدود تعداد رکھنے کا مقصد یورپی اتحادیوں کو اس بات راضی کرنا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے فوجی شام بھیجیں۔ امریکا کے قائم مقام وزیر دفاع پیٹرک شناہان نے گزشتہ ہفتے جرمن شہر میونخ میں ہونے والی سکیورٹی کانفرنس کے دوران بعض یورپی ممالک کے وزرائے دفاع سے ملاقات کی تھی۔ خیال یہی ہے کہ اس ملاقات کا مقصد ان ممالک کو شام سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد وہاں اپنے فوجی بھیجنے پر راضی کرنا تھا۔