شام میں روسی ڈرون طیاروں کی جاسوس پروازیں شروع
21 ستمبر 2015امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے پیر اکیس ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ماسکو نے شام کے ریاستی علاقے کی فضائی حدود میں اپنے ڈرون طیاروں کی جن جاسوس پروازوں کا آغاز کیا ہے، اس سے کچھ ہی عرصہ قبل روس نے ایک شامی فضائی اڈے پر اپنی فضائی طاقت میں واضح اضافہ بھی کیا تھا۔
روئٹرز کے مطابق یہ بات دو اعلیٰ امریکی اہلکاروں نے اپنی شناخت خفیہ رکھے جانے کی شرط پر بتائی تاہم انہوں نے فوری طور پر یہ واضح نہیں کیا کہ ان پروازوں کا دائرہ کار کتنا وسیع ہے یا ان میں روس کے کتنے ڈرون طیارے حصہ لے رہے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے امریکی اہلکاروں کے اس بیان پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
شام کی فضائی حدود میں روسی ڈرون طیاروں کی پروازوں کے آغاز کے ساتھ ہی ان اضافی فضائی خطرات کی بھی نشاندہی ہو گئی ہے، جس کا سامنا وہاں ان روسی نگران طیاروں اور امریکا کی سربراہی میں قائم بین الاقوامی عسکری اتحاد کے جنگی طیاروں کو کرنا پڑے گا۔
امریکی اور روسی وزرائے دفاع نے ابھی گزشتہ جمعے کے روز ہی اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ حادثاتی تصادم کے امکانات کو کم کرنے کے لیے وہ اقدامات کریں گے، جو عسکری زبان میں deconfliction کہلاتے ہیں۔
روئٹرز نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ ماسکو کی طرف سے شام میں اپنے ڈرون طیاروں کی نگران پروازیں شروع کیے جانے کے بعد اب شامی تنازعے کے بارے میں فوری طور پر روسی امریکی مکالمت کی ضرورت ایک بار پھر زیادہ ہو گئی ہے۔
شام میں وسیع تر تباہی کا سبب بننے والی ساڑھے چار سال سے جاری خانہ جنگی میں روس ابھی تک شامی صدر بشار الاسد کا بہت بڑا حمایتی ہے جبکہ واشنگٹن ماسکو کی طرف سے اسد حکومت کی حمایت کے خلاف ہے۔
اس کے باوجود سرد جنگ کے زمانے کے دو بڑے حریف ملکوں کے طور پر روس اور امریکا اس بات پر بھی متفق ہیں کہ شام اور عراق میں وسیع تر علاقوں پر قابض عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ ان دونوں کی بھی مشترکہ دشمن ہے۔
لیکن روئٹرز کے مطابق شام میں روس ملکی اپوزیشن کے ان جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کی کوشش بھی کر سکتا ہے، جنہیں وہ بشار الاسد کی حکومت کے لیے اسلامک اسٹیٹ ہی کی طرح ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شامی اپوزیشن کے انہی جنگجوؤں کو امریکا کی حمایت بھی حاصل ہے کیونکہ واشنگٹن ان کے ہاتھ مضبوط کرتے ہوئے اسد حکومت کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔
دیگر رپورٹوں کے مطابق روسی ڈرون طیاروں نے شام میں اپنی جو جاسوس پروازیں شروع کی ہیں، ان کے لیے انہوں نے بظاہر لاذقیہ کے قریب اسی شامی ہوائی اڈے سے ٹیک آف کیا تھا، جہاں امریکی حکام کے مطابق حالیہ دنوں میں ماسکو اپنی عسکری طاقت میں اضافہ کرتے ہوئے بحری فوج کے پیدل دستوں، گن شپ ہیلی کاپٹروں، اور جنگی طیاورں سمیت بہت سے فوجی اور جنگی ساز و سامان پہنچا چکا ہے۔