1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں زہریلی گیس استعمال ہوئی، مگر ذمہ دار کون؟

9 اپریل 2018

فرانسیسی صدر ماکروں اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفت گو میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ شامی علاقے مشرقی غوطہ میں زہریلی گیس کا استعمال کیا گیا، تاہم اس سلسلے میں ذمہ دار کا تعین ابھی ہونا باقی ہے۔

Syrien Ost Ghouta Zivile Helfer nach Luftangriff
تصویر: picture-alliance/AA/M. Abu Taim

دونوں رہنماؤں نے مشرقی غوطہ میں اس کیمیائی حملے سے متعلق دستیاب معلومات ایک دوسرے سے بانٹیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ سات اپریل کو مشرقی غوطہ کے علاقے دوما میں زہریلی گیس کا استعمال کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ امریکا اور فرانس مل کر اس واقعے کے اصل ذمہ داروں کا تعین کریں گے۔

اسد کو بھاری قیمت چکانا ہو گی، صدر ٹرمپ

شام میں مشتبہ کیمیائی حملہ: 100 سے زائد ہلاکتوں کا خدشہ

’سکرپل پر کیمیائی حملہ، حقائق سے پردہ اٹھنے میں وقت لگے گا‘

پیر کے روز فرانسیسی صدارتی دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان معلومات اور جائزوں کا تبادلہ تصدیق کر رہا ہے کہ مشرقی غوطہ میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’اس حملے سے متعلق ذمہ داروں کا واضح تعین ہرحال میں کیا جانا چاہیے۔‘‘

بیان کے مطابق  دونوں ممالک کے صدور نے اس واقعے کی چھان بین سے متعلق ٹیموں کو ہدایات دی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک عمل کو وسعت دیں جب کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان اس موضوع پر 48 گھنٹے بعد دوبارہ بات چیت ہو گی۔

واضح رہے کہ مشرقی غوطہ میں باغیوں کے زیرقبضہ علاقے دوما میں کیمیائی حملے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔ انٹرنیٹ پر سامنے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا تھا کہ وہاں عام شہریوں کی بڑی تعداد سانس لینے میں دشواری اور زہریلی گیس کی وجہ سے منہ سے جھاگ نکلنے جیسے عوامل کا سامنا کر رہی تھی۔ شامی تنازعے پر نگاہ رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کیمیائی حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد سو تک پہنچ سکتی ہے، جس میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔

اے ٹی/ ص ح

روئٹرز

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں