فرانسیسی صدر ماکروں اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفت گو میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ شامی علاقے مشرقی غوطہ میں زہریلی گیس کا استعمال کیا گیا، تاہم اس سلسلے میں ذمہ دار کا تعین ابھی ہونا باقی ہے۔
اشتہار
دونوں رہنماؤں نے مشرقی غوطہ میں اس کیمیائی حملے سے متعلق دستیاب معلومات ایک دوسرے سے بانٹیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ سات اپریل کو مشرقی غوطہ کے علاقے دوما میں زہریلی گیس کا استعمال کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ امریکا اور فرانس مل کر اس واقعے کے اصل ذمہ داروں کا تعین کریں گے۔
پیر کے روز فرانسیسی صدارتی دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان معلومات اور جائزوں کا تبادلہ تصدیق کر رہا ہے کہ مشرقی غوطہ میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’اس حملے سے متعلق ذمہ داروں کا واضح تعین ہرحال میں کیا جانا چاہیے۔‘‘
بیان کے مطابق دونوں ممالک کے صدور نے اس واقعے کی چھان بین سے متعلق ٹیموں کو ہدایات دی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک عمل کو وسعت دیں جب کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان اس موضوع پر 48 گھنٹے بعد دوبارہ بات چیت ہو گی۔
شام پر حملہ، نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟
شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد مغربی اقوام فوجی کارروائی کرتے ہوئے اس تنازعے میں شامل ہو گئی ہیں۔ شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف مظاہرے تقریباً ڈھائی سال قبل پُر امن انداز میں شروع ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جنگ اور افراتفری
ایک اندازے کے مطابق شام میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ شام میں حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد امریکا اور دیگر اتحادی ممالک نے دمشق حکومت کے خلاف فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا۔ تاہم اس عسکری کارروائی کے نتائج کیا نکلیں گے، اس کا کسی کو بھی اندازہ نہیں۔
تصویر: Reuters/Goran Tomasevic
پُرامن احتجاج
شام میں فروری 2011ء میں خانہ جنگی کا آغاز اس وقت ہوا، جب عرب انقلاب سے متاثر ہو کر شامی اپوزیشن نے ملکی سربراہ صدر بشارالاسد کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے۔ تاہم جیسے ہی حکومت نے مخالف رہنماؤں کو گرفتار کرنا شروع کیا، اس احتجاج نے شدت پکڑ لی۔ یہ لوگ جمہوریت کے نفاذ اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال
مظاہروں کی شدت کو دیکھتے ہوئے دمشق حکومت نے فوج اور ٹینک متعلقہ علاقوں میں بھیج دیے تاکہ بد امنی پر قابو پایا جا سکے۔ اس دوران ہونے والی جھڑپوں میں روزانہ عام شہری ہلاک ہوتے رہے اور اسی وجہ سے مظاہروں کا دائرہ مزید وسیع ہوتا چلا گیا۔ اس موقع پر امریکا اور یورپی یونین نے شامی حکام کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مظاہروں میں سب یکجا
اسد حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں معاشروں کے تمام طبقوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ شام سے اپوزیشن رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد نے فرار ہوکر پڑوسی ملک ترکی میں پناہ لی۔ وہاں جمع ہو کر ان تمام گروپوں نے بشارالاسد کے خلاف متحد ہوکر لڑنے کا فیصلہ کیا۔
تصویر: Reuters
خانہ جنگی
شام میں ملکی افواج اور حکومت مخالفین کے مابین جھڑپوں کا سلسلسہ وقفے وقفے سے جاری رہا۔ دسمبر 2011ء میں عرب لیگ نے صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اپنے مبصرین شام روانہ کیے۔ اس دوران بمباری جاری رہی اور عرب لیگ نے مبصرین کو واپس بلا لیا۔ حکومتی دستوں کی پیش قدمی جاری رہنے کی بناء پر آہستہ آہستہ شام کے متعدد شہر خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گئے۔
تصویر: Salah Al-Ashkar/AFP/Getty Images
بین الاقوامی رد عمل
مئی 2012ء میں باغیوں کے گڑھ حمص میں حکومتی افواج کے حملوں میں سینکڑوں شہری مارے گئے۔ پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر اس کارروائی کی مذمت کی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسد سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ امریکی صدر اوباما نے اعلان کیا کہ اگر اسد نے اپوزیشن کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تو امریکا حملہ کرے گا۔
تصویر: Getty Images
باغیوں کے لیے بین الاقوامی امداد
اسد حکومت کی طرف سے باغیوں کے مختلف گروپوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی جاتی رہی۔ امریکا اور برطانیہ امدادی ساز و سامان کے ذریعے باغیوں کی مدد کرتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی ختم کی جانی چاہیے۔ بالآخر اس پابندی میں مزید توسیع نہیں کی گئی، جس کے بعد باغیوں کو اسلحے کی فراہمی مزید غیر قانونی نہیں رہی۔ ترکی اور اسرائیل کی سرحد پر وقتاً فوقتاً جھڑپیں عمل میں آتی رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
لاکھوں شامی شہری در بدر
مختلف اپوزیشن گروپوں نے نومبر 2012ء میں ایک قومی اتحاد تشکیل دیا، جسے کچھ ہی عرصے بعد امریکا اور دیگر ملکوں نے شامی قوم کا جائز نمائندہ تسلیم کر لیا۔ انتہا پسند النصرۃ فرنٹ اس اتحاد میں شامل نہیں ہے۔ دریں اثناء کئی ملین شامی شہری پناہ کی تلاش میں گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ لاکھوں شہری شام کے ہمسایہ ممالک میں مہاجر کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
حکومت کی جارحانہ پیشقدمی اور زہریلی گیس
جون 2013ء میں شامی فوج نے لبنانی حزب اللہ کے فوجیوں کی مدد سے دفاعی اعتبار سے اہم شہر قصیر کو باغیوں سے واپس چھین لیا۔ اگست میں غوطہ میں زہریلی گیس کے ایک مبینہ حملے میں سینکڑوں انسان ہلاک ہو گئے۔ امریکا اور دیگر ملکوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ اس حملے کے پیچھے اسد حکومت کا ہاتھ ہے۔ اوباما کے مطابق ایک سال پہلے اُنہوں نے جو سرخ لائن کھینچی تھی، اس حملے سے وہ لائن پار کر لی گئی ہے۔
تصویر: Reuters
تباہی و بربادی
ماہرین کے مطابق اس تنازعے کا کوئی بھی فریق فوجی اعتبار سے کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اسد غالباً اس بات کا مکمل تہیہ کیے ہوئے ہیں کہ مغربی دنیا کی طرف سے تمام تر دھمکیوں کے باوجود وہ اقتدار نہیں چھوڑیں گے۔ باغیوں کو بھی یقین ہے کہ یہ تنازعہ پُر امن طریقے سے حل نہیں ہونے والا۔ اثر و رسوخ کے لیے ہونے والی کشمکش میں نہ تو عالمی طاقتیں اور نہ ہی علاقائی طاقتیں اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
10 تصاویر1 | 10
واضح رہے کہ مشرقی غوطہ میں باغیوں کے زیرقبضہ علاقے دوما میں کیمیائی حملے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔ انٹرنیٹ پر سامنے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا تھا کہ وہاں عام شہریوں کی بڑی تعداد سانس لینے میں دشواری اور زہریلی گیس کی وجہ سے منہ سے جھاگ نکلنے جیسے عوامل کا سامنا کر رہی تھی۔ شامی تنازعے پر نگاہ رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کیمیائی حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد سو تک پہنچ سکتی ہے، جس میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔