شام میں زہریلی گیس کا حملہ: امریکا اور روس پھر آمنے سامنے
5 اپریل 2017امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک تازہ بیان میں شمالی شام میں باغیوں کے زیر قبضہ خان شیخون نامی علاقے پر کیے جانے والے زہریلی گیس کے حملے کو ’ہولناک‘ اور ’ناقابلِ بیان‘ قرار دیا ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے ایک جائزے کے مطابق روس نے اس حملے کے لیے شامی فوج کو قصور وار قرار دینے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ماسکو حکومت بدستور اسد حکومت کی حمایت کرتی رہے گی۔ اس روسی موقف کے بعد ماسکو اور ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان اب تک کے غالباً سب سے بڑے سفارتی تنازعے کے خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
امریکا کا موقف ہے کہ خان شیخون میں بچوں اور خواتین سمیت بہتّر افراد کی موت کا باعث وہ سیرین زہریلی گیس بنی، جو ایک شامی طیارے سے گرائی گئی تھی۔ روس نے ایک ایسی وضاحت کی ہے، جس کا مقصد اسد کو بچانا ہے اور وہ یہ کہ یہ زہریلی گیس اُس ڈپو سے خارج ہوئی، جہاں باغیوں نے زہریلی گیس ذخیرہ کر رکھی تھی اور جو شامی بمباری کا نشانہ بنا۔
آج خان شیخون کے حملے پر منعقد ہونے والے عالمی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں امریکا، برطانیہ اور فرانس نے ایک مسودہٴ قرارداد پیش کیا ہے جس میں اس حملے کا ذمہ دار دمشق حکومت کو قرار دیا گیا ہے۔ روسی حکومت کے ترجمان دیمتری پیشکوف کے مطابق روس اقوام متحدہ میں یہ موقف اختیار کرے گا کہ اس کے لیے باغیوں کو قصور وار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ روس پہلے بھی شامی حکومت اور فوج کے خلاف مذمتی قراردادوں کوویٹو کر چکا ہے۔
’فری اِدلب آرمی‘ نامی باغی گروپ کے کمانڈر حسن حاج علی نے اس روسی موقف کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ باغی کوئی اعصابی گیس بنانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ شمال مغربی شام سے روئٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اس کمانڈر نے کہا: ’’ہر کسی نے اُس طیارے کو دیکھا، جب وہ گیس کے ساتھ بمباری کر رہا تھا۔ ویسے بھی اس علاقے کے سب شہری جانتے ہیں کہ یہاں کوئی فوجی پوزیشنز نہیں ہیں اور نہ ہی (ہتھیار) تیار کرنے کے مراکز۔‘‘
روئٹرز کے مطابق اس تازہ واقعے کے بعد اب ٹرمپ کے سامنے بھی اپنے پیش رو اوباما ہی کی طرح یہ مشکل سوال آن کھڑا ہوا ہے کہ ماسکو کو کھلے عام چیلنج کرتے ہوئے مشرقِ وُسطیٰ کی اس جنگ میں زیادہ سرگرم شرکت کی جائے اور اسد کو ممنوعہ ہتھیار استعمال کرنے کی سزا دی جائے یا سمجھوتہ کیا جائے اور شامی حکمران اسد کے اقتدار میں رہنے کو قبول کر لیا جائے، یہ خطرہ مُول لیتے ہوئے کہ اس طرح امریکا کے طرزِ عمل کو کمزوری پر محمول کیا جائے گا۔
فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں مارک ایغو کے مطابق اسد نے یہ حملہ یہ جانچنے کے لیے کیا ہے کہ آیا نئی امریکی انتظامیہ بدستور اپنی پیشرو اوباما انتظامیہ کے اس مطالبے پر قائم ہے کہ اسد کو اقتدار سے ہَٹ جانا چاہیے۔ برطانوی وزیر خارجہ بورِس جانسن، جنہوں نے دو مہینے پہلے اپنے ملک کی پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اسد کو صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت دی جا سکتی ہے، تازہ حملے کے بعد کہا ہے کہ اب اسد کو جانا ہو گا۔