شام میں سیاسی کارکن اور ان کے اہل خانہ نشانے پر
24 ستمبر 2011بیروت سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ابھی حال ہی میں شام میں ایک ایسی نوجوان خاتون کی لاش ملی، جس کا سر قلم کر دیا گیا تھا اور جس کے جسم کے مختلف حصے بھی کاٹ دیے گئے تھے۔ یہ جرم مبینہ طور پر دمشق حکومت کے حامی شامی سکیورٹی ایجنٹوں کی طرف سے کیا گیا تھا۔
خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے سیاسی کارکنوں کے اہل خانہ، عینی گواہوں اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ ایک ایسی نئی لیکن ہولناک حکمت عملی ہے جو صدر بشار الاسد کے مخالفین کو مظاہروں سے روکنے کے لیے اپنائی جا رہی ہے۔ شام میں اپوزیشن اور عام سیاسی کارکن صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف جو مسلسل احتجاجی تحریک چلا رہے ہیں، اسے اب چھ ماہ ہو چکے ہیں۔ حکومت اپنی طرف سے طاقت کے مسلسل استعمال اور بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتوں کے باوجود ابھی تک اس احتجاجی مہم کو ختم نہیں کروا سکی۔
اٹھارہ سالہ زینب الحسنی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ مارچ کے وسط میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف شروع ہونے والے عوامی احتجاج کے دوران ملکی سکیورٹی دستوں یا ان کے ایجنٹوں کے ہاتھوں دوران حراست ہلاک ہونے والی پہلی خاتون ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق زینب الحسنی کو شامی ایجنٹوں نے مبینہ طور پر اس لیے گرفتار کیا تھا کہ اس کے سیاسی طور پر بہت سرگرم بھائی کو اس بات پر مجبور کیا جاسکے کہ وہ خود کو شامی سکیورٹی دستوں کے حوالے کر دے۔
بیروت سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق زینب الحسنی کا قتل اس بات کا ثبوت ہے کہ شام میں اسد خاندان کی اقتدار پر گرفت کتنی مضبوط ہے۔ اس کے علاوہ دل ہلا دینے والے ایسے واقعات اس بات کی گواہی بھی دیتے ہیں کہ گزشتہ چالیس برسوں سے بھی زائد عرصے سے ہر حال میں اپنی حکمرانی کو یقینی بنانے والے اسد خاندان کی طرف سے کسی بھی طرح کی سیاسی مخالفت کو کس طرح کچل دیا جاتا ہے۔
شام بائیس ملین کی آبادی والا ایک ایسا ملک ہے جہاں عشروں سے اسد خاندان کی حکمرانی معاشرے میں ایک خاص طرح کے خوف کی وجہ بن چکی ہے۔ حکومتی تعاقب سے متاثرہ افراد کے مطابق سرکاری ایجنٹ مخالفین کو جس طرح نشانہ بناتے ہیں، ان میں دھمکی آمیز ٹیلی فون کالوں سے لے کر حکومتی ناقدین کا یکدم غائب ہو جانا تک شامل ہیں۔ جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے مطابق شام میں سرکردہ سیاسی کارکنوں اور ان کے رشتہ داروں کا تعاقب اب ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ قومی سرحدوں سے باہر تک بھی کیا جا رہا ہے۔
عالمی ادارے کے اس دفتر کی ایک خاتون ترجمان کے بقول اس دفتر کو یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ شام میں حکومت مخالف سیاسی کارکنوں، ان کے اہل خانہ حتیٰ کہ ان کے ہمدرد افراد تک کو سکیورٹی ایجنٹوں کی طرف سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
شام میں چھ ماہ قبل شروع ہونے والی بشار الاسد کے اقتدار کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک کے دوران محتاط اندازوں کے مطابق بھی اب تک کم از کم دو ہزار سات سو سے زائد عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ جو شہری اب تک گرفتار کیے جا چکے ہیں، ان کی تعداد بھی ہزاروں میں بنتی ہے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: شادی خان سیف