1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں شہریوں پر فائرنگ کا سلسلہ بند کیا جائے، عرب لیگ

3 جنوری 2012

عرب لیگ کے سربراہ نبیل العربی نے کہا ہے کہ شام میں گھات لگا کر فائر کرنے والے شہریوں کی زندگیوں کے لیے بدستور خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ فائرنگ کا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

تصویر: dapd

نبیل العربی نے پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا: ’’گھات لگا کر فائر کرنے والے (اسنائپر) ابھی تک موجود ہیں، فائرنگ جاری ہے، یہ سلسلہ مکمل طور پر بند ہونا چاہیے۔‘‘

اس کے ساتھ ہی نبیل العربی نے شام بھیجے جانے والے عرب مبصرین کی وہاں موجودگی کا بھی دفاع کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مشن کو مزید وقت درکار ہے۔

نبیل العربی نے قاہرہ میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ یہ معاملہ صدر بشارالاسد کی حکومت کے سامنے اٹھایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ فائرنگ بند کروانا اور شہریوں کا تحفظ ہی ان کا مقصد ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ کون کس پر فائرنگ کر رہا ہے، یہ کہنا مشکل ہے۔

شام میں سکیورٹی کریک ڈاؤن بدستور جاری ہےتصویر: REUTERS

عرب لیگ کے سربراہ کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب اس لیگ کی ایک مشاورتی کمیٹی عرب مبصرین کو فوری طور پر واپس بلانے کا مطالبہ کر چکی ہے۔

عرب پارلیمنٹ کے اسپیکر سالم دقباسی نے اتوار کو ایک بیان میں نبیل العربی پر زور دیا تھا کہ وہ شام کی حکومت کی جانب سے شہریوں کی مسلسل ہلاکتوں کے تناظر میں فوری طور پر عرب مبصرین کو واپس بلائیں۔

دقباسی نے کہاتھا: ’’دمشق حکومت کی کارروائیاں عرب لیگ کے پروٹوکول کی واضح خلاف ورزی ہیں، جس کا مقصد شام کے شہریوں کا تحفظ ہے۔‘‘

انہوں نے کہا تھا: ’’ہم تشدد میں اضافہ ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں، بچوں سمیت مزید لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ عرب لیگ کے مبصرین کی موجودگی میں ہو رہا ہے، جس پر عرب عوام مشتعل ہیں۔‘‘

دوسری جانب خبر رساں ادارے اے ایف پی نے حکومت مخالف ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ پیر کو شام کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی کے کریک ڈاؤن کے نتیجے گیارہ مزید شہری ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ باغی فوجیوں نے بھی فوج کی تین مختلف پوزیشنوں کو نشانہ بنایا ہے۔

رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں