1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں فضائی حملے، ستائیس شہری ہلاک

عاطف بلوچ25 اپریل 2014

شامی فضائیہ کی طرف سے جمعرات کے دن کیے گئے ایک حملے میں ستائیس شہری مارے گئے ہیں جبکہ دوسری طرف بشار الاسد کی حکومت کیمیائی ہتھیاروں کے اپنے ذخیرے سے تقریباﹰ مکمل طور پر دستبردار ہو گئی ہے۔

تصویر: Reuters

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سیرئین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے حوالے سے بتایا ہے کہ شامی فضائیہ نے صوبہ حلب کے عطارب نامی گاؤں میں حملے کیے، جن کے نتیجے میں تین بچوں سمیت مجموعی طور پر ستائیس افراد ہلاک ہو گئے۔ باغیوں کے قبضے والے اس علاقے میں شامی صدر بشار الاسد کی افواج گزشتہ برس دسمبر کے وسط سے ہی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان عسکری کارروائیوں کے نتیجے میں وہاں سینکڑوں شہری ہلاک جبکہ ہزاروں نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔

حلب میں فعال اپوزیشن کے کارکن ابو عمر نے اے ایف کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ جمعرات کے دن فضائی حملہ ایک مارکیٹ پر کیا گیا، اس لیے زیادہ تر شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دمشق حکومت ایسے شہریوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے، جو صدر بشار الاسد کے خلاف جاری بغاوت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ شام میں جاری تین سالہ خانہ جنگی کے نتیجے میں ڈیرھ لاکھ افراد کی ہلاکت کو رپورٹ کیا جا رہا ہے جبکہ مجموعی طور پر بے گھر ہونے والوں کی تعداد نو ملین بتائی جاتی ہے۔

شامی حکومت اپنے مہلک ہتھیاروں کے ذخیرے کے 92.5 فیصد حصے سے دستبردار ہو چکی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

دریں اثناء کیمیائی ہتھیاروں کے انسداد کے عالمی ادارے OPCW نے بتایا ہے کہ شامی حکومت اپنے مہلک ہتھیاروں کے ذخیرے کے 92.5 فیصد حصے سے دستبردار ہو چکی ہے اور ان ہتھیاروں کو ناکارہ بنانے کا عمل جاری ہے۔ دمشق حکومت نے عہد کر رکھا ہے کہ وہ اتوار تک اپنے تمام تر کیمیائی ہتھیار اس عالمی ادارے کے حوالے کر دے گی تاکہ انہیں تلف کر دیا جائے۔

خیال رہے کہ OPCW کے ماہرین تیس جون تک شام کے ان تمام مہلک ہتھیاروں کو ناکارہ بنا دے گی۔ امریکا اور روس کی ثالثی میں گزشتہ برس طے پانے والی ایک ڈیل کے نتیجے میں شامی حکومت نے اپنے کیمیائی ہتھیار ناکارہ بنانے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔ دمشق کا کہنا ہے کہ کیمیائی ہتھیار تیار کرنے والی تنصیبات کو سیل کر دیا جانا چاہیے تاہم مغربی ممالک ان کی مکمل تباہی چاہتے ہیں کیونکہ انہیں خوف ہے کہ مستقبل میں ان کو ایک مرتبہ پھر کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔

ادھر درعا میں شامی فورسز اور باغیوں کے مابین ہوئی ایک تازہ جھڑپ میں بائیس باغی اور جہادی مارے گئے ہیں۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اس دوران متعدد فوجی مارے یا قیدی بھی بنا لیے گئے ہیں۔ ایک اور پیشرفت میں شمالی دمشق میں اقوام متحدہ کے امدادی کارکنوں کو یرموک میں جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر شام میں 3.5 ملین ضروت مند انسانوں کو مدد پہنچانے میں کوئی خاطر خواہ بہتری پیدا نہیں ہوئی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں