شام میں فوجی آپریشن: ٹرمپ کا ترکی کے خلاف پابندیوں کا ارادہ
12 اکتوبر 2019
شمالی شام میں ترک فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد امریکا اب ترکی کے خلاف سخت پابندیوں کی تیاریوں میں ہے۔ وہاں پہلی بار ترک فائرنگ کی زد میں امریکی فوجی بھی آ گئے لیکن صدر ایردوآن اپنے موقف میں کسی بھی نرمی پر تیار نہیں ہیں۔
اشتہار
شمال مشرقی شام میں ترکی اور شام کی سرحد کے قریب انقرہ کے فوجی دستوں نے چند روز قبل کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف کارروائی شروع کی تھی، اس کے آغاز کے بعد واشنگٹن نے ترکی کو باقاعدہ تنبیہ کرتے ہوئے دھمکی بھی دی تھی۔ اب لیکن امریکا نے مزید ایک قدم جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں واشنگٹن کے اتحادی ترکی کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔
اس امر کی واشنگٹن میں امریکی وزیر خزانہ اسٹیو منوچن نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ صدر ٹرمپ نے امریکی حکومتی اہلکاروں کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ ترکی کے خلاف واشنگٹن کی طرف سے 'بہت مؤثر‘ تادیبی اقدامات کی تیاریاں شروع کر دیں۔
'ہم ترک معشیت کو جامد کر سکتے ہیں‘
اسٹیو منوچن کے مطابق امریکی حکومت نے بڑے بڑے مالیاتی اداروں کو مطلع کر دیا ہے کہ واشنگٹن کی طرف سے ترکی کے خلاف پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ اس بارے میں امریکی وزیر خزانہ نے صحافیوں کو بتایا کہ صدر ٹرمپ عنقریب ہی ایک ایسے حکم نامے پر دستخط کر دیں گے، جس کے تحت امریکی وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ کے ساتھ مشاورت کے بعد 'ترک حکومت کے ساتھ رابطے رکھنے والے ہر فرد کے خلاف پابندیوں‘ کا نفاذ ممکن ہو جائے گا۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جمعہ گیارہ اکتوبر کی رات امریکی وزیر خزانہ منوچن نے بتایا، ''یہ بہت ہی سخت پابندیاں ہوں گی، میں امید کرتا ہوں کہ ہمیں ان پابندیوں کے نفاذ کا فیصلہ نہیں کرنا پڑے گا۔‘‘ ساتھ ہی اسٹیو منوچن نے یہ بھی کہا، ''جب ہمیں لازمی طور پر ایسا کرنا ہی پڑا، تو ہم ترک معیشت کو عملاﹰ جامد بھی کر سکتے ہیں۔‘‘
ٹرمپ کی تشویش
اسٹیو منوچن کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ انقرہ حکومت شمال مشرقی شام میں ابھی تک اپنا فوجی آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے اور ترک دستوں کی ان کارروائیوں کی زد میں عام شہری بھی آ سکتے ہیں۔
منوچن نے کہا، ''اس کے علاوہ یہ بات بھی اشد ضروری ہے کہ ترکی اس امر کی اجازت نہ دے کہ دہشت گرد گروپ 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے زیر حراست جنگجوؤں میں سے کوئی بھی فرار ہو جائے یا رہائی پانے میں کامیاب ہو جائے۔‘‘
امریکی فوجی بھی فائرنگ کی زد میں
شمالی شام میں ترک فوجی آپریشن کے دوران اب پہلی بار یہ بھی ہوا ہے کہ امریکی فوجی بھی ترک توپ خانے کی فائرنگ کی زد میں آ گئے ہیں۔ یہ امریکی فوجی دستے، جو ترک فوجی کارروائیوں کے آغاز سے قبل شمالی شام کے علاقے سے پیچھے ہٹ گئے تھے، شام کے سرحدی شہر کوبانی میں موجود ہیں۔
شامی خانہ جنگی: آغاز سے الرقہ کی بازیابی تک، مختصر تاریخ
سن دو ہزار گیارہ میں شامی صدر کے خلاف پرامن مظاہرے خانہ جنگی میں کیسے بدلے؟ اہم واقعات کی مختصر تفصیلات
تصویر: picture-alliance/dpa
پندرہ مارچ، سن دو ہزار گیارہ
مارچ سن ہزار گیارہ میں شام کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔ عرب اسپرنگ کے دوران جہاں کئی عرب ممالک میں عوام نے حکومتوں کے تختے الٹ دیے، وہیں شامی مظاہرین بھی اپنے مطالبات لیے سڑکوں پر نکلے۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ حکومت سیاسی اصلاحات کرے۔ تاہم پندرہ مارچ کو حکومتی فورسز نے درعا میں نہتے عوام پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں چار شہری مارے گئے۔
تصویر: dapd
اٹھائیس مارچ، سن دو ہزار گیارہ
شامی صدر بشار الاسد کا خیال تھا کہ طاقت کے استعمال سے عوامی مظاہروں کو کچل دیا جائے گا۔ پندرہ مارچ سے شروع ہوئے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اٹھائیس مارچ تک ساٹھ مظاہرین ہلاک کر دیے گئے۔ حکومتی کریک ڈاؤن کی شدت کے ساتھ ہی یہ مظاہرے شام بھر میں پھیلنے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اٹھارہ اگست، سن دو ہزار گیارہ
شامی حکومت کے خونریز کریک ڈاؤن کے جواب میں تب امریکی صدر باراک اوباما نے بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ اور امریکا میں تمام شامی حکومتی اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم شامی صدر نے عالمی برادری کے مطالبات مسترد کر دیے اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف کارروائی جاری رکھی گئی۔
تصویر: AP
انیس جولائی، سن دو ہزار بارہ
جولائی سن دو ہزار بارہ میں حکومتی کریک ڈاؤن کا سلسلہ حلب تک پھیل گیا۔ وہاں مظاہرین اور حکومتی دستوں میں لڑائی شروع ہوئی تو یہ تاریخی شہر تباہی سے دوچار ہونا شروع ہو گیا۔ تب درعا، حمص، ادلب اور دمشق کے نواح میں بھی جھڑپوں میں شدت آ گئی۔ اسی دوران حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک مکمل باغی فورس میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔
تصویر: dapd
دسمبر، سن دو ہزار بارہ
برطانیہ، امریکا، فرانس، ترکی اور خلیجی ممالک نے باغی اپوزیشن کو شامی عوام کی قانونی نمائندہ تسلیم کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اسد کی حامی افواج کے خلاف کارروائی میں سیریئن کولیشن سے تعاون بھی شروع کر دیا گیا۔ اس وقت بھی شامی صدر نے عالمی مطالبات مسترد کر دیے۔ دوسری طرف اسد کے خلاف جاری لڑائی میں شدت پسند عسکری گروہ بھی ملوث ہو گئے۔ ان میں القاعدہ نمایاں تھی۔
تصویر: Reuters
انیس مارچ، سن دو ہزار تیرہ
اس دن خان العسل میں کیمیائی حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے چھبیس افراد مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر تعداد شامی فوجیوں کی تھی۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے مطابق یہ سارین گیس کا حملہ تھا۔ تاہم معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کارروائی کس نے کی تھی۔ حکومت اور باغی فورسز نے اس حملے کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اسی سال عراق اور شام میں داعش کے جنگجوؤں نے بھی اپنی کارروائیاں بڑھا دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
ستائیس ستمبر، دو ہزار تیرہ
شامی تنازعے میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کی وجہ سے اقوام متحدہ نے دمشق حکومت کو خبردار کیا کہ اگر اس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ناکارہ نہ بنایا تو اس کے خلاف عسکری طاقت استعمال کی جائے گی۔ تب صدر اسد نے ان خطرناک ہتھیاروں کا ناکارہ بنانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ اسی دوران سیاسی خلا کی وجہ سے انتہا پسند گروہ داعش نے شام میں اپنا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
جون، سن دو ہزار چودہ
شامی شہر الرقہ پہلا شہر تھا، جہاں انتہا پسند گروہ داعش نے مکمل کنٹرول حاصل کیا تھا۔ جون میں داعش نے اس شہر کو اپنا ’دارالخلافہ‘ قرار دے دیا۔ تب ان جنگجوؤں نے اسی مقام سے اپنے حملوں کا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔ بائیس ستمبر کو امریکی اتحادی افواج نے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔
تصویر: picture-alliance/abaca/Yaghobzadeh Rafael
تئیس ستمبر، دو ہزار پندرہ
شامی تنازعے میں روس اگرچہ پہلے بھی شامی بشار الاسد کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے تھا تاہم اس دن ماسکو حکومت شامی خانہ جنگی میں عملی طور پر فریق بن گئی۔ تب روسی جنگی طیاروں نے اسد کے مخالفین کے خلاف بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تاہم ماسکو کا کہنا تھا کہ وہ صرف جہادیوں کو نشانہ بنا رہا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/M. Japaridze
مارچ، سن دو ہزار سولہ
روسی فضائیہ کی مدد سے شامی دستوں کو نئی تقویت ملی اور جلد ہی انہوں نے جنگجوؤں کے قبضے میں چلے گئے کئی علاقوں کو بازیاب کرا لیا۔ اس لڑائی میں اب شامی فوج کو ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کا تعاون بھی حاصل ہو چکا تھا۔ مارچ میں ہی اس اتحاد نے پالمیرا میں داعش کو شکست دے دی۔
تصویر: REUTERS/O. Sanadiki
دسمبر، سن دو ہزار سولہ
روسی جنگی طیاروں اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے تعاون سے شامی فوج نے حلب میں بھی جہادیوں کو پسپا کر دیا۔ تب تک یہ شہر خانہ جنگی کے باعث کھنڈرات میں بدل چکا تھا۔ شہری علاقے میں شامی فوج کی یہ پہلی بڑی کامیابی قرار دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. al-Masri
جنوری، سن دو ہزار سترہ
امریکا، ترکی، ایران اور روس کی کوششوں کی وجہ سے شامی حکومت اور غیر جہادی گروہوں کے مابین ایک سیزفائر معاہدہ طے پا گیا۔ تاہم اس ڈیل کے تحت جہادی گروہوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ ترک نہ کیا گیا۔
تصویر: Reuters/R. Said
اپریل، سن دو ہزار سترہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد حکم دیا کہ شامی حکومت کے اس فوجی اڈے پر میزائل داغے جائیں، جہاں سے مبینہ طور پر خان شیخون میں واقع شامی باغیوں کے ٹھکانوں پر کیمیائی حملہ کیا گیا تھا۔ امریکا نے اعتدال پسند شامی باغیوں کی مدد میں بھی اضافہ کر دیا۔ تاہم دوسری طرف روس شامی صدر کو عسکری تعاون فراہم کرتا رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/US Navy
جون، سن دو ہزار سترہ
امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے فائٹرز نے الرقہ کا محاصرہ کر لیا۔ کرد اور عرب جنگجوؤں نے اس شہر میں داعش کو شکست دینے کے لیے کارروائی شروع کی۔ اسی ماہ روس نے اعلان کر دیا کہ ایک فضائی حملے میں داعش کا رہنما ابوبکر البغدادی غالباﹰ مارا گیا ہے۔ تاہم اس روسی دعوے کی تصدیق نہ ہو سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Huby
اکتوبر، دو ہزار سترہ
ستمبر میں کرد فورسز نے الرقہ کا پچاسی فیصد علاقہ بازیاب کرا لیا۔ اکتوبر میں اس فورس نے الرقہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی خاطر کارروائی کا آغاز کیا۔ مہینے بھر کی گھمسان کی جنگ کے نتیجے میں اس فورس نے سترہ اکتوبر کو اعلان کیا کہ جہادیوں کو مکمل طور پر پسپا کر دیا گیا ہے۔ اس پیشقدمی کو داعش کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا گیا تاہم شامی خانہ جنگی کے دیگر محاذ پھر بھی ٹھنڈے نہ ہوئے۔
تصویر: Reuters/E. de Castro
15 تصاویر1 | 15
کوبانی شام کا وہ شہر ہے، جو کرد زبان میں کوبانی اور عربی میں عین العرب کہلاتا ہے۔ اس بارے میں امریکی وزارت دفاع نے کہا کہ کوبانی میں تعینات امریکی فوجی دستے ترک توپ خانے کی طرف سے فائرنگ کی زد میں تو آئے لیکن اس واقعے میں ''کوئی امریکی فوجی زخمی نہیں ہوا۔‘‘
یورپی یونین کا بھی پابندیاں عائد کرنے پر غور
نیوز ایجنسی اے پی کی رپورٹوں کے مطابق شمالی شام میں ترک فوجی آپریشن کی وجہ سے اب یورپی یونین بھی ترکی کے خلاف پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہی ہے۔ اس دوران سویڈن تو کھل کر یہ بھی کہہ چکا ہے کہ ترکی کو ہتھیاروں کی فراہمی کے حوالے سے پوری یورپی یونین کی طرف سے پابندیان عائد کی جانا چاہییں۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اگر برسلز نے انقرہ کے خلاف ایسی کسی پابندی یا پابندیوں کا فیصلہ کیا تو پھر یورپی یونین کا رکن کوئی بھی ملک ترکی کو ہتھیار فراہم نہیں کر سکے گا۔
شمالی شام میں ترک فوجی دستے دمشق حکومت کے خلاف لڑنے والے شامی باغیوں کی اس مسلح تنظیم کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں، جو سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کہلاتی ہیں۔ اس فورس کی قیادت کردوں کے مسلح ملیشیا گروپ وائی پی جی کے پاس ہے، جسے انقرہ حکومت ترکی میں ممنوعہ کرد علیحدگی پسند تنظیم کردستان ورکرز پارٹی یا پی کے کے کا مسلح بازو قرار دیتی ہے۔ کردستان ورکرز پارٹی کو انقرہ حکومت نے قانوناﹰ ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
م م / ع س (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے، اے پی)
شامی تنازعہ میں برسر پیکار قوتیں
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں سن 2011ء کے عرب اسپرنگ کے بعد شام میں خانہ جنگی کا جو سلسلہ شروع ہوا اس نے دنیا کے مختلف حریف گروہوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت شام میں کون سی قوتیں طاقت کی جنگ لڑ رہی ہیں؟
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شام کے مسلح گروہ
شام کے بڑے علاقے پر مختلف باغی گروپوں اور صدر بشار الاسد کے درمیان کنٹرول کے حصول کی جنگ کے باعث ملک زبردست خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اس تنازعہ میں اب تک کئی غیر ملکی طاقتیں شامل ہوچکی ہیں اور کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ڈکٹیٹر
شامی افواج جسے شامی عرب افواج ، ایس ایس اے، کے نام سے جانا جاتا ہے، ملکی صدر بشار الاسد کی وفا دار ہے اور پورے ملک پر بشار الاسد کی حکومت ایک بار پھر بحال کرنے کے لیے جنگ لڑ رہی ہے۔ اس جنگ میں ان کے ساتھ نیشنل ڈیفینس فورس جیسی ملیشیا ، روس اور ایران کے عسکری ماہرین کی مشاورت شامل ہے۔
ترکی اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ ہے اور اس وقت شامی جنگ میں صدر بشار الاسد کے حریف باغیوں کے گروپ کی حمایت کر رہا ہے۔ ترکی جنوبی ادلب اور افرین صوبوں میں باغیوں کے ہمراہ کارروائیوں میں ساتھ دے چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Pitarakis
مشرقی محافظ
روس بشار الاسد کا طاقتور دوست ثابت ہو رہا ہے۔ ستمبر 2015 میں روسی فضائیہ اور زمینی افواج نے باقاعدہ طور پر شامی فوج کے شانہ بشانہ کارروائیوں میں حصہ لیا۔ روس کی اس خانہ جنگی میں شمالیت اب تک بشار الاسد کے حق میں ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/M. Metzel
مغربی اتحادی
امریکا نے 50 ممالک کے اتحادیوں کے ساتھ شام میں سن 2014ء سے اسلامک اسٹیٹ کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس وقت امریکا کے ایک ہزار سے زائد خصوصی دستے سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کی حمایت کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A.Brandon
مزاحمت کار
شامی کردوں اور اسلامک اسٹیٹ کے درمیان اختلافات جنگ کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ امریکی حمایت یافتہ اتحاد اسلامک اسٹیٹ کے خلاف سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کا ساتھ دے رہا ہے جو کرد اور عرب ملیشیا کا بھی اتحادی ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Sik
نئے جہادی
اسلامک اسٹیٹ نے خطے میں جاری افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عراق اور شام کے بڑے علاقوں پر سن 2014ء میں قبضہ جما لیا تھا اور وہاں خلافت قائم کرنا چاہی۔ تاہم اب روس اور امریکی فوجی مداخلت کے بعد ان کو دونوں ممالک میں شکست فاش ہوئی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
پرانے جہادی
اسلامک اسٹیٹ وہ واحدگروپ نہیں جو شام میں تباہی کا ذمہ دار ہے۔ اس تنازعہ میں الاسد حکومت اور باغیوں کے کئی گروہ شامل ہیں۔ ان میں ایک بنیادی تنظیم حیات التحریر الاشام بھی ہے جس کے القاعدہ کے ساتھ روابط ہیں اور جس نے صوبے ادلب کے بشتر حصے کا کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Nusra Front on Twitter