1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں لاوارث بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد

25 مئی 2023

جنگ نے شام کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے۔ شہری شدید معاشی مسائل کا شکار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بچوں کو لاوارث چھوڑنے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ابراہیم عثمان بھی ان لوگوں میں شامل ہیں، جنہیں ایک لاوراث بچی ملی تھی۔

Syrien Flüchtlingslager Mashhad Ruhin
تصویر: Anas Alkharboutli/dpa/picture-alliance

یہ سردیوں کی ایک انتہائی سرد رات تھی۔ ابراہیم عثمان نماز کے لیے گھر سے تو اکیلے نکلے تھے، لیکن جب واپس لوٹے تو ان کی گود میں ایک چھوٹی سی بچی بھی تھی۔ جسے پیدا ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی اس کے والدین گاؤں کی مسجد کی سیڑھیوں پر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

شام کے باغیوں کے قبضے والے شمال مغربی شہر ادلب کے حزانو گاؤں میں رہنے والے 59 سالہ ابراہیم بتاتے ہیں، "میں اس بچی کو اپنے گھر لے آیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ میں تمہارے لیے ایک تحفہ لایا ہوں۔" انہوں نے بچی کا نام ہبت اللہ رکھا، جس کے معنی ہوتے ہیں، "خدا کا تحفہ" اور اسے اپنے خاندان کے فرد کے طور پر پرورش کرنے کا فیصلہ کیا۔

شام: ادلب پناہ گزیں کیمپ میں سردی سے بچے ہلاک

حکام کا کہنا ہے کہ جنگ زدہ شام میں ایسے نوزائیدہ بچوں کو ان کے والدین مساجد، ہسپتالوں اور حتیٰ کہ زیتون کے درختوں کے نیچے بھی لاوارث چھوڑ کر چلے جاتے ہیں کیونکہ 12 برس سے زیادہ عرصے سے جنگ زدہ شام میں غربت اور مایوسی اپنے عروج پر ہے۔

دو سال میں 100 سے زائد لاوارث بچے ملے

شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نگاہ رکھنے والے واشنگٹن میں قائم ایک گروپ سیریئنز فار ٹروتھ اینڈ جسٹس کے مطابق سال 2011 میں جنگ شروع ہونے سے پہلے "بچوں کو لاوارث چھوڑنے کے صرف چند ایک واقعات" ہی رپورٹ ہوتے تھے۔

اس گروپ نے مارچ میں ایک رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ کے مطابق سن 2021 کے اوائل اور سن 2022 کے اواخر کے درمیانی عرصے میں ملک بھر سے 100 سے زائد بچے لاوارث ملے ہیں اور ان میں 62 لڑکیاں تھیں۔ رپورٹ کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

گروپ کا کہنا ہے کہ تنازعے کے آغاز کے بعد سے بچوں کو لاوارث چھوڑنے کی تعدا میں "ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے"۔ کیونکہ جنگ کے سماجی اور معاشی اثرات کی وجہ سے حکومت کے زیر کنٹرول اور باغیوں کے زیر قبضہ دونوں ہی علاقے متاثر ہو رہے ہیں۔

بحران زدہ علاقوں میں ہزاروں بچے سکیورٹی فورسز کی طرف سے زیر زنداں

گروپ نے اپنی رپورٹ میں غربت، عدم تحفظ، بچوں کی شادی کے علاوہ جنسی زیادتی اور شادی کے بغیر حمل جیسے عوامل کی بھی نشاندہی کی ہے۔

شام میں قانونی طور پر بچوں کو گود نہیں لیا جا سکتا۔ لیکن ابراہیم عثمان کا کہنا ہے کہ وہ ہبت اللہ کی پرورش کے لیے مقامی حکام سے اجازت طلب کریں گے۔ابراہیم نے گلوگیر آواز میں کہا، "میں نے اپنے بچوں سے کہا ہے کہ اگر میں مرجاؤں تو اسے میری وراثت میں حصہ ملنا چاہیے۔ حالانکہ میں جانتا ہوں کہ وہ قانونی طور پر میری خاندانی جائیداد کی وارث کبھی نہیں ہو سکتی۔"

لہراتے ہوئے بالوں اور گلابی رنگ کے سینڈل پہنے اچھلتی کودتی ہوئی اور اپنے مستقبل سے بے خبر تین سالہ ہبت اللہ ابراہیم عثمان کو "دادا'' کہہ کر پکارتی ہے۔ ابراہیم اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوتے کہتے ہیں،"یہ تو ایک معصوم بچی ہے۔"

سن 2021 کے اوائل اور سن 2022 کے اواخر کے درمیانی عرصے میں ملک بھر سے 100 سے زائد بچے لاوارث ملے ہیں اور ان میں 62 لڑکیاں تھیںتصویر: Getty Images/B. Kara

لاکھوں متاثرین

شام میں جنگ میں اب تک پانچ لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور لاکھوں دیگر بے گھر ہو چکے ہیں۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ نے ملک کے بنیادی ڈھانچے کو بھی تباہ کر دیا ہے۔

شام میں بے گھرہونے والےافراد کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ

محکمہ صحت کے اہلکار ظاہر حجو نے بتایا کہ گزشتہ سال کے ابتدائی دس ماہ کے دوران حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں 53 لاوارث نوزائیدہ بچوں کا اندراج کیا گیا تھا، جن میں 28 لڑکے اور 25 لڑکیاں تھیں۔

شام کے صدر بشارالاسد نے اس سال ایک حکم نامہ جاری کیا، جس میں بچوں کے لیے خصوصی سہولیات فراہم کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ ایسے لاوراث بچوں کو اب خود بخود عرب، شامی اور مسلم کے طور پر اندراج کیا جائے گا اور جس مقام سے وہ ملیں گے اسی کو  ان کی جائے پیدائش قرار دیا جائے گا۔

فن لینڈ نے شام میں محصور بچوں کے حقوق پامال کیے، اقوام متحدہ

باغیوں کے زیر قبضہ ادلب صوبے میں لاوارث بچوں کے سب سے بڑے مرکز میں سماجی کارکنان ان بچوں کی نگہداشت کرتے ہیں۔ ان مراکز میں مرد اور خواتین کام کرتی ہیں اور بچوں کو ہر طرح کی سہولیات مہیا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

شام میں اب تک پانچ لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور لاکھوں دیگر بے گھر ہو چکے ہیںتصویر: Juma Mohammad/Zuma/picture alliance

جنگ اور خاندان دونوں ہی ذمہ دار

اس امدادی مرکز کے سربراہ فیصل الحمود نے بتایا کہ انہیں زیتون کے درخت کے نیچے ایک ایسی بچی ملی تھی، جسے بلی نے نوچ کھسوٹ ڈالا تھا۔فیصل بتاتے ہیں، "اس کے چہرے سے خون ٹپک رہا تھا، بعد میں ہم نے اس بچی کو ایک خاندان کے سپرد کر دیا۔"

حمود کا کہنا تھا کہ ان کے کارکن اس بات کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ ایسے بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور ہم اس پر بھی نگاہ رکھتے ہیں کہ ان بچوں کی بردہ فروشی نہ ہونے پائے۔

ادلب میں باغیوں کے تعاون سے کام کرنے والے ایک افسر عبداللہ عبداللہ نے بتایا کہ سن 2019 میں شروع ہونے کے بعد سے اس مرکز میں 26 بچے آچکے ہیں۔ ان میں 14 لڑکیاں اور 12 لڑکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ رواں برس اب تک نو بچے آچکے ہیں۔

شامی خانہ جنگی کے دوران 2022ء سب سے کم خونریز سال رہا

شام کے شمال اور شمال مغرب میں جہادیوں اور ترک حمایت یافتہ گروپوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں چالیس لاکھ سے زیادہ افراد رہتے ہیں، جن میں 90 فیصد کا گزر بسر امداد پر ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ شامی باشندوں کی مدد میں ’بری طرح ناکام‘

عبداللہ عبداللہ کہتے ہیں،"بچوں کو لاوارث چھوڑنے کے لیے جنگ اور ان کے خاندان دونوں ہی ذمہ دار ہیں۔ یہ بچے تو معصوم ہیں۔"

 ج ا/     (اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں