شام میں ’محفوظ علاقے‘ قائم کرنے کا منصوبہ عمل میں آ گیا
6 مئی 2017شام میں محفوظ علاقوں کے قیام کا یہ منصوبہ گزشتہ چھ برسوں سے جنگ کے شکار اس ملک میں تشدد کے خاتمے کی تازہ ترین بین الاقوامی کوشش کا نتیجہ ہے۔ یہ پہلا ایسا منصوبہ ہے جس میں غیر ملکی مسلح مانیٹرز شام میں قیام امن کو یقینی بنائیں گے۔ امریکا اس معاہدے کا حصہ نہیں ہے اور شامی حکومت یا باغی بھی اس معاہدے پر دستخط کرنے والوں میں شامل نہیں ہیں۔ شامی باغیوں نے تو بلکہ اس پر اعتراض بھی کیا ہے کہ یہ منصوبہ قانونی حیثیت نہیں رکھتا۔ شامی حکومت کی طرف سے تاہم کہا گیا تھا کہ وہ روس، ایران اور ترکی کی طرف سے پیش کردہ محفوظ علاقوں کے قیام کے منصوبے کی حمایت کرتی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس منصوبے کے بارے میں جزوی تفصیلات آئندہ ہفتوں میں طے ہونا ہیں تاہم اس پر عملدرآمد جمعہ اور ہفتہ چھ مئی کی شب سے شروع ہو گیا ہے۔ شامی تنازعے پر نظر رکھنے والے مانیٹرز کے مطابق اس معاہدے پر عملدرآمد شروع ہونے کے بعد سے حمص اور حماء میں بمباری کی بہت کم رپورٹس سامنے آئی ہیں جبکہ ہلاکتوں کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔ یہ دونوں علاقے متوقع طور پر ’’محفوظ علاقوں‘‘ میں شامل ہیں۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ مجوزہ ’سیف زونز‘ یا محفوظ علاقوں میں جنگ بندی کو کیسے یقینی بنایا جائے گا۔ نقشوں میں ان محفوظ علاقوں کا حتمی تعین کیا جانا بھی ابھی باقی ہے۔ روسی حکام کے مطابق محفوظ علاقوں کے قیام اور اس منصوبے کی تفصیلات طے کرنے میں کم از کم ایک ماہ کا وقت لگے گا۔
محفوظ علاقوں کے قیام کے اس منصوبے پر دستخط قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ہونے والے شامی امن مذاکرات کے موقع پر جمعرات چار مئی کو کیے گئے۔ شامی حکومت اور باغیوں کے درمیان براہ راست یہ مذاکرات روس، ترکی اور ایران کی کوششوں سے کرائے جا رہے ہیں۔ اس معاہدے کے مطابق محفوظ علاقوں کے اوپر سے کسی قسم کے جنگی طیارے پرواز نہیں کر سکیں گے۔ مبصرین کے مطابق اس شرط کے علاوہ دیگر شرائط پر عملدرآمد ہو پانا بظاہر مشکل دکھائی دے رہا ہے۔