1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں مزید 15 مظاہرین ہلاک

25 جون 2011

شامی فورسز نے جمعہ کو ملک کے مختلف علاقوں میں حکومت مخالف مظاہرین پر فائرنگ کر کے کم از کم 15 شہریوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ دوسری جانب امریکہ اور یورپی یونین نے شہریوں کے خلاف شامی فوج کی کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔

تصویر: picture-alliance/empics

دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقےعربین میں ہزاروں افراد نے بشارالاسد حکومت کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا۔ یہ افراد نعرے لگا رہے تھے، ’’بشار الاسد کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔‘‘ بین الاقوامی خبررساں اداروں کے مطابق عربین سے عینی شاہدین کی ٹیلی فون کالز پر بھی یہ نعرے سنے جا سکتے تھے۔ واضح رہے کہ شام میں صحافیوں اور بین الاقوامی خبررساں اداروں پر سرکاری پابندیوں کے وجہ سے وہاں سے خبروں کی دستیابی میں مشکلات کا سامنا ہے اور شام سے اطلاعات کا حصول صرف عینی شاہدین، انسانی حقوق کے کارکنوں اور مقامی شہریوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

شام میں کام کرنے والے ایک انسانی حقوق کے ادارے کے مطابق جمعے کے روز صرف حمص شہر میں 14مظاہرین سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔ آزاد ذرائع سے ان اطلاعات کی تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔

شام کے سرکاری میڈیا پر ان ہلاکتوں کی ذمہ داری ’’مسلح افراد‘‘ پر عائد کی جا رہی ہے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق مسلح افراد سکیورٹی فورسز کو بھی گولیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

اب تک سینکڑوں افراد سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

دوسری جانب جمعہ کو یورپی یونین نے شام کے خلاف پابندیاں مزید سخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یورپی یونین اور امریکی کی جانب سے الزام عائد کیا جا رہا ہےکہ ایرانی حکومت مظاہرین کی سرکوبی کے لیے شامی حکومت کو مدد فراہم کر رہی ہے۔ اسی تناظر میں جمعہ کے روز یورپی یونین نے شام کے خلاف اپنی پابندیوں کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے، اس میں ایرانی انقلابی گارڈز کے تین کمانڈروں کو بھی شامل کر لیا ہے۔ جمعہ کے روز مزید چار شامی حکومتی اہلکاروں پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ اس طرح شام کے خلاف یورپی یونین کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کی زد میں بشار الاسد اور ان کے قریبی رفقاء سمیت اب 34 افراد آ چکے ہیں۔

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں