1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں مشتعل ہجوم امریکی سفیر پر ٹوٹ پڑا

30 ستمبر 2011

شام کے صدر بشار الاسد کے مشتعل حامیوں نے دمشق میں امریکی سفیر پر حملہ کیا ہے۔ واشنگٹن انتظامیہ نے اسے حکومتی مہم قرار دیا ہے، جس کا مقصد امریکی سفارت کاروں کو دھمکانا ہے۔

تصویر: AP

دمشق میں تعینات امریکی سفیر رابرٹ فورڈ جمعرات کو دارالحکومت میں اپوزیشن رہنما حسن عبدالعظیم سے ملنے پہنچے۔ وہاں تقریباﹰ ایک سو مشتعل افراد نے جارحانہ نعرے بازی کرتے ہوئے عبدالعظیم کے دفتر میں گھسنے کی ناکام کوشش کی۔

عبدالعظیم نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ہجوم نے دو گھنٹے تک ان کے دفتر کا محاصر کیے رکھا اور اس دوران دروازہ توڑنے کی کوشش بھی کی۔

واشنگٹن میں وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ امریکہ نے فورڈ پر حملے کی کوشش کو دمشق میں اعلیٰ سطح پر اٹھایا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ شام امریکی سفارت کاروں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے۔

کلنٹن کے نائب ترجمان مارک ٹونر کا کہنا ہے کہ ہجوم نے امریکی گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچایا اور سفیر اور ان کے عملے پر ٹماٹر برسائے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس دوران کوئی اہلکار زخمی نہیں ہوا اور شام کے سکیورٹی اہلکاروں کے وہاں پہنچنے کے بعد سب بحفاظت سفارت خانے پہنچ گئے۔

ٹونر نے الزام لگایا کہ اس واقعے کے پیچھے اسد حکومت کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ واقعہ اس مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد امریکی سفارت کاروں کو دھمکانا ہے۔

رابرٹ فورڈ پر انڈے بھی برسائے گئےتصویر: dapd

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنے نے کہا ہے کہ فورڈ پر حملے کا کوئی جواز نہیں۔ انہوں نے سینیٹ پر زور دیا کہ وہ ان کی  (فورڈ کی) تقرری کی تصدیق کرے تاکہ وہ اپنا جرأت مندانہ کام جاری رکھ سکیں۔

فورڈ گزشتہ پانچ برسوں میں شام میں مقرر کیے جانے والے پہلے امریکی سفارت کار ہیں۔ انہوں نے عارضی طور پر یہ عہدہ جنوری میں سنبھالا تھا، تاہم انہیں ابھی سینیٹ کی جانب سے منظوری حاصل نہیں ہوئی۔

گیارہ جولائی کو بھی دمشق میں ہجوم نے امریکی اور فرانسیسی سفارت خانوں پر ہلہ بول دیا تھا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب فورڈ نے فرانسیسی سفیر کے ساتھ اسد مخالف مظاہروں کے حوالے سے مرکزی علاقے حما کا دورہ کیا تھا۔

 

رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں