شام میں ممکنہ فوجی کارروائی: جرمنی شامل نہیں ہو گا، میرکل
12 اپریل 2018
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے واضح کر دیا ہے کہ برلن حکومت شام میں کسی بھی ممکنہ فوجی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گی۔ مشرقی غوطہ میں مبینہ کیمیائی حملے کے بعد امریکا اور اتحادی ممالک شام میں عسکری کارروائی پر غور کر رہے ہیں۔
اشتہار
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے شام میں کسی بھی ممکنہ فوجی کارروائی کا حصہ بننے کو خارج از امکان قرار دے دیا ہے۔ جمعرات بارہ اپریل کو ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ برلن حکومت شام میں کسی فوجی کارروائی میں شریک نہیں ہو گی لیکن یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ’ناقابل قبول‘ ہے۔
مشرقی غوطہ میں مزید تیس روز تک فائربندی کے مطالبے کی تجویز
01:58
میرکل کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کو شواہد مل گئے ہیں کہ شامی حکومت نے مشرقی غوطہ میں واقع باغیوں کے زیر قبضہ شہر دوما میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں۔
ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ پیرس حکومت غور کر رہی ہے کہ شواہد مل جانے کے بعد اب مستقبل میں کیا حکمت عملی اپنائی جائے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ شواہد کہاں سے ملے اور وہ کیا ہیں۔ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ شامی حکومت نے سات اپریل کو دوما میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تھے۔ تاہم دمشق حکومت کے ساتھ ساتھ روس بھی ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
ادھر جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا ہے کہ شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف کسی بھی ممکنہ عسکری کارروائی سے قبل مغربی اتحادی ممالک کو جرمنی سے مشاورت کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی کسی بھی عسکری مہم سے قبل اتحادی ممالک کا متحد اور ہم خیال ہونا ضروری ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے شام میں ممکنہ فوجی کارروائی کے اعلان کے بعد برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے بھی شام میں ممکنہ فوجی کارروائی سے متعلق اپنی کابینہ سے مشاورت شروع کر دی ہے۔
اس صورتحال میں روس نے امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کو خبردار کیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسی کارروائی سے گریز کریں، جس کے نتیجے میں شام کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے زور دیتے ہوئے کہا، ’’یہ ضروری ہے کہ ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے، جن کے نتیجے میں شام میں تناؤ میں اضافہ ہو جائے۔‘‘
ع ب / م م / خبر رساں ادارے
’شام کی وہ دوزخ، جس کا ایندھن بچے ہیں‘
شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج، باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں چار لاکھ سے زائد شہری محصور ہیں اور تقریبا ساڑھے پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
مشرقی غوطہ میں طبی امداد فراہم کرنے والی تنظیم سیرئین سول ڈیفنس نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اسد کی حامی فورسز نے بمباری کے دوران کلورین گیس کا استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں بچے ہلاک ہو رہے ہیں اور متاثرہ افراد کو سانس لینے مین دشواری کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
آزاد ذرائع سے کلورین گیس کے استعمال کی فی الحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ روس نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ اس کی حمایت یافتہ فورسز یہ زیریلی گیس استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے جنگ بندی پر فوری عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین پر قائم اس ’جہنم کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے‘۔
تصویر: picture alliance/AA/Q. Nour
زیر محاصرہ شامی علاقے مشرقی غوطہ میں شدید فضائی حملوں کے بعد وہاں پھنسے عام شہری امداد اور طبی مدد کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے فائربندی کے مطالبے کے باوجود علاقے میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
گزشتہ ایک ہفتے میں شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی جانب سے مشرقی غوطہ پر کی جانے والی شدید بمباری کے نتیجے میں اب تک پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز سلامتی کونسل نے شام میں 30 روزہ فائربندی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ فائربندی پر عمل درآمد ’بلاتاخیر‘ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
سیریئن آبزرویٹری کے مطابق سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود روسی طیاروں نے ہفتے کے ہی روز مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ آبزرویٹری نے مزید بتایا کہ ہلاک شدگان میں 127 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
شامی خانہ جنگی سے متعلق صلاح و مشورے کے لیے آج پیر کے روز یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک اہم اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ وزرائے خارجہ یہ طے کریں گے کہ کس طرح مشرقی غوطہ میں ظلم و تشدد کے شکار شہریوں کی بہتر طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/B.Khabieh
سلامتی کونسل کی قرارداد میں تیس روزہ فائر بندی کی بات کی گئی ہے۔ اس دوران امدادی سامان کی ترسیل اور شدید زخمیوں کو متاثرہ علاقوں سے باہر نکالا جائے گا۔ اس قرارداد میں شامی باغیوں کے گڑھ مشرقی غوطہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
مشرقی غوطہ دو مسلم گروپوں میں منقسم ہے اور وہاں شام میں القاعدہ کی مقامی شاخ بھی سرگرم ہے۔ روس نے باغیوں کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کی تھی تاکہ وہاں موجود باغی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل جائیں، بالکل اسی طرح جیسا 2016ء میں حلب میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم غوطہ میں تمام باغی تنظیموں نے اس روسی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AA/A. Al-Bushy
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر امانویل ماکروں نے اتوار کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ان رہنماؤں نے پوٹن سے اپیل کی کہ وہ شامی حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے فائربندی پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al-Bushy
اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق ان حملوں کے دوران اس علاقے میں کم از کم پانچ ہسپتالوں پر بھی بمباری کی گئی۔ ان حملوں کے بعد کئی ہسپتال معمول کے مطابق کام کرنے کے قابل نہ رہے۔
تصویر: picture alliance/AA/K. Akasha
ان حملوں کے حوالے سے شامی حکومتی افواج کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن اسد حکومت اکثر یہی کہتی ہے کہ سرکاری افواج کی طرف سے صرف باغیوں اور جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/Syrian Civil Defense White Helmets
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک فرانس نے شام میں ان تازہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔