’شام میں کارروائی پر ایردوآن کے خلاف مقدمہ چلایا جائے‘
26 اکتوبر 2019
اقوام متحدہ کی سابق تفتيش کار کارلا ڈیل پونٹے نے کہا ہے کہ شام میں ترکی کے فوجی آپریشن کے بعد ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات کے تحت تفتیش کی جانی چاہيے۔
اشتہار
شام سے متعلق اقوام متحدہ کے انکوائری کمیشن کی سابق رکن ڈیل پونٹے نے ہفتے کے روز ایک سوئس اخبار سے گفتگو میں کہا ہے کہ شام میں ترکی کی فوجی مداخلت نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس عمل نے مسلح شامی تنازعے کو دوبارہ بھڑکا دیا ہے۔
ترکی میں کردوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں اضافہ
دوسری جانب انقرہ حکومت کا موقف ہے کہ یہ فوجی آپریشن شام اور ترکی کے سرحدی علاقے سے امریکی فوجی دستوں کے انخلاء کے بعد شروع کیا گیا۔ ترکی کا کہنا ہے کہ ’وائی پی جی‘ ترُک ریاست کے خلاف سرگرم کُردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) سے منسلک ہے اور اس کی لڑائی ’’دہشت گروں‘‘ کے خلاف ہے۔
روانڈا اور سابق یوگوسلاویہ میں جنگی جرائم کا مقدمہ چلانے والی سوئٹزرلینڈ کی سابق اٹارنی جنرل ڈیل پونٹے کے مطابق، ’’ایردوآن کی جانب سے شامی سرزمین پر کردوں کو ختم کرنے کے لیے حملہ ناقابل یقین ہے۔‘‘ سوئس اخبار ’شوائس آم ووخن اینڈے‘ سے انٹرویو میں انہوں نے مزید کہا کہ ترک صدر کے خلاف جنگی جرائم کے الزام کے تحت تفتیش کی جانی چاہیے۔
نسل کشی کے پچیس برس، روانڈا میں سو روزہ سوگ
امریکا سمیت نیٹو کے اتحادی ممالک کی جانب سے شمالی شام میں ترکی کی مداخلت پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ تاہم ڈیل پونٹے سمجھتی ہیں کہ یورپی ممالک کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں کے معاملے کی وجہ سے یورپی حکمران ترکی سے براہ راست تناؤ میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔
ڈیل پونٹے ستمبر سن 2012 میں شام سے متعلق اقوام متحدہ کی تین رکنی تفتیشی کمیٹی کا حصہ رہ چکی ہیں۔ يہ کميٹی عراقی ايزدی برادی کی نسل کشی، کیمیائی ہتھیاروں کے حملے اور امدادی قافلوں پر بمباری کی تفتیش کے حوالے سے قائم کی گئی تھی۔ تاہم سکیورٹی کونسل کی جانب سے عدم تعاون کی وجہ بيان کرتے ہوئے ڈی پونٹے اس کمیٹی سے دستبردار ہو گئی تھيں۔
فکر و اطمينان کی کشمکش ميں مبتلا شامی کرد
شام ميں کردوں کے خلاف ترکی کی فوجی کارروائی اور دمشق حکومت کے دستوں کی واپسی نے مقامی کردوں کو ايک عجيب سی کشمکش ميں مبتلا کر ديا ہے۔ شامی فوج کی واپسی مقامی کردوں کے ليے فکر کا باعث ہے۔
تصویر: Karlos Zurutuza
دو لاکھ سے زائد افراد بے گھر
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ترکی کی شام ميں فوجی کارروائی کے نتيجے ميں اب تک دو لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہيں۔ ايسے ميں لاتعداد افراد نے سرحد پار کر کے عراق ميں کرد علاقوں کی طرف جانے کی کوشش کی ليکن صرف انہيں ايسا کرنے ديا گيا، جن کے پاس مقامی رہائش کارڈ يا اجازت نامہ تھا۔
تصویر: Karlos Zurutuza
سرحدی علاقوں ميں مردوں کی اکثريت
شام کے شمال مشرقی حصوں ميں کئی ديہات خالی ہوتے جا رہے ہيں کيونکہ وہاں سے بڑے پيمانے پر نقل مکانی جاری ہے۔ ترک سرحد کے قريب علاقوں سے عورتيں اور بچے، اندرون ملک صوبہ الحسکہ منتقل ہو رہے ہيں۔ نتيجتاً سرحدی علاقوں ميں اکثريتی طور پر مرد بچے ہيں۔ تين بچوں کی والدہ ايک خاتون نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ الحسکہ ميں بھی لوگوں کی کافی تعداد ميں آمد کے سبب حالات مشکل ہوتے جا رہے ہيں۔
تصویر: Karlos Zurutuza
چہل پہل والے علاقے آج ويران
عامودا کے اس بازار ميں ہر وقت گھما گھمی رہا کرتی تھی ليکن آج يہ ويران پڑا ہے۔ يہاں اب اکثر مرد اکھٹے ہوتے ہيں۔ نو اکتوبر کو شروع ہونے والی ترکی کی فوجی کارروائی کے بعد سے بہت سی دکانيں بند ہو چکی ہيں۔ شامی کرنسی کی قدر ميں کمی کے سبب دکاندار اپنی اشياء کوڑيوں کے دام بيچتے ہيں۔ شيلنگ اکثر صبح سے شروع ہوتی ہے۔ جو لوگ اب بھی اس شہر ميں موجود ہيں، وہ رات کو کم ہی باہر نکلتے ہيں۔
تصویر: Karlos Zurutuza
کل کے دشمن، آج کے دوست
ترک سرحد سے متصل شمال مشرقی شامی شہر قامشلی ميں کرد انتظاميہ اور صدر بشار الاسد کے حاميوں کے مابين حالات سن 2011 ميں خانہ جنگی کے آغاز ہی سے کشيدہ ہيں۔ شامی فوج کی ترک سرحد پر تعيناتی کے حوالے سے فريقين کے مابين تازہ ڈيل کے بعد ابھی تک يہ غير واضح ہے کہ علاقے کا حقيقی کنٹرول کس کے پاس ہو گا۔
تصویر: Karlos Zurutuza
دو محاذوں پر لڑائی
کرد فائٹرز ترک فوج اور انقرہ کے حمايت يافتہ جنگجوؤں کے خلاف برسرپيکار تو ہيں ليکن يہ واضح نہيں کہ اسد کی حمايت حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے ہی ملک ميں کس صورتحال سے دوچار ہوں گے۔ کيا اسد حکومت ان کے زير کنٹرول علاقوں پر اپنی مرضی مسلت کرے گی يا کردوں کو آزادی مل سکے گی۔
تصویر: Karlos Zurutuza
امريکا نے غلط وقت پر کردوں کا ساتھ چھوڑا
امريکا کی جانب سے يکطرفہ اور اچانک شام سے اپنی فوج کے انخلاء کے فيصلے سے شامی کرد سمجھتے ہيں کہ ان کے ساتھ اچھا نہيں کيا گيا۔ بہت سے مقامی لوگوں نے اس پر اطمينان کا اظہار کيا کہ ترک فوج کی پيش قدمی روکنے کے ليے ان کی انتظاميہ نے دمشق حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کر ليا ہے۔
تصویر: Karlos Zurutuza
ہلاک شدگان کی تعداد ہزاروں ميں
شامی کردوں کے مطابق دہشت گرد تنظيم ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے خلاف لڑائی ميں ان کے گيارہ ہزار سے زائد جنگجو ہلاک ہوگئے۔ داعش کو اس علاقے ميں شکست ہو چکی ہے ليکن قتل و تشدد کے واقعات اب بھی جاری ہيں۔ ترکی کی چڑھائی کے بعد سے بھی درجنوں شہری اور سينکڑوں فائٹرز ہلاک ہو چکے ہيں۔