شام میں گزشتہ ہفتے ’تین سو روسی ہلاک یا زخمی ہوئے‘
عاطف توقیر
16 فروری 2018
شام میں گزشتہ ہفتے ’ہلاک یا زخمی ہونے والے روسی شہریوں‘ کی تعداد تین سو کے قریب بنتی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ماسکو حکومت سے تعلق رکھنے والی نجی سکیورٹی کمپنی سے وابستہ قریب تین سو روسی گزشتہ ہفتے شام میں ہلاک یا زخمی ہو گئے۔
اشتہار
اس معاملے سے تعلق رکھنے والے ذرائع کے مطابق ہلاک یا زخمی ہونے والے افراد شام میں سرگرم روسی نجی سکیورٹی کمپنی سے تعلق رکھنے والے جنگجو تھے۔ ایک روسی فوجی ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ شام میں گزشتہ ہفتے قریب سو روسی فائٹر ہلاک ہوئے جب کہ ایک اور ذریعے نے ان ہلاکتوں کی تعداد 80 سے زائد بتائی ہے۔
اتنی بڑی تعداد میں ان ہلاکتوں کی اطلاعات ایک ایسے وقت پر سامنے آ رہی ہیں، جب اتفاقیہ طور پر قریب اسی وقت سات فروری کو شامی شہر دیرالزور میں امریکی فورسز کی جانب سے شامی حکومتی فورسز کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔
روسی فوجی اسکول، ’مورچوں میں بچپن‘
روس میں قائم فوجی اسکولوں میں بچے ریاضی اور تاریخ کے ساتھ ساتھ جنگی ساز و سامان کے استعمال کی تربیت بھی حاصل کرتے ہیں۔ ان اسکولوں کا مقصد ریاستی سر پرستی میں ایک عسکری اور محب وطن اشرافیہ تیار کرنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
روشن مستقبل
آج کے دور میں اگر کوئی روسی شہری اپنے بچوں کے لیے ایک روشن مستقبل کا خواہاں ہے، تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے بچے ملک میں قائم دو سو سے زائد کیڈٹ اسکولوں میں سے کسی ایک میں تعلیم حاصل کریں۔ ان اسکولوں میں لڑکے اور لڑکیاں روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ عکسری تربیت بھی حاصل کرتے ہیں۔ یہاں سے تعلیم مکمل کرنے والے بچوں کے لیے بہت سے امکانات ہوتے ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
مادر وطن کے لیے
اسکول میں پریڈ: ماسکو حکومت نے 2001ء میں ایک تربیتی منصوبہ تیار کیا تھا، جس کا مقصد بچوں میں خصوصی طور پر وطن کے لیے محبت بڑھانا تھا۔ فوجی اسکول اور نیم فوجی کیمپس اس منصوبے کا حصہ تھے۔ اگر بچے اپنے کیڈٹ اسکول میں ایک فوجی کی طرح پریڈ کرنا چاہتے ہیں تو حب الوطنی کا جذبہ ان کے لیے بہت مدد گار ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
ایک قدیم روایت
جنوبی روسی علاقے اسٹاروپول کے کیڈٹ اسکول کے بچے ایک پُر وقار تقریب کے ساتھ اپنے تعلیمی سال کا آغاز کرتے ہیں۔ جیرمیلوف جیسے دیگر کیڈٹ اسکولز روس میں ایک قدیم روایت رکھتے ہیں۔ زار اور اسٹالن کے زمانے کے اشرافیہ نے انہی اسکولوں سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اس وجہ سے ان اسکولوں میں داخلے کا نظام بہت سخت ہے۔ صرف ذہین اور جسمانی طور پر فٹ بچوں کے ہی امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
ایک جنرل سے منسوب
جیرمیلوف کیڈٹ اسکول 2002 ء میں بنایا گیا تھا اور یہ جنرل الیکسی پیٹرووچ جیرمیلوف سے منسوب ہے۔ جنرل جیرمیلوف نے انیسویں صدی میں نیپولین کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا اور انہیں روس میں ایک جنگی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
نظم و ضبط
اس اسکول میں تعلیم کا حصول کسی پتھریلے راستے پر چلنے سے کم نہیں۔ اگر یہ بچے ایک کامیاب فوجی بننا چاہتے ہیں تو انہیں لازمی طور پر سخت تربیت کرنا پڑتی ہے۔ ان کیڈٹس کو باکسنگ اور مارشل آرٹ سکھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فٹنس کے سخت مراحل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
فائرنگ کیسے کی جاتی ہے
سخت جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ ان بچوں کو ہتھیار بھی دکھائے جاتے ہیں۔ اس دوران انہیں اسلحہ بارود کے بارے میں سمجھایا جاتا ہے اور فوجی انہیں فائرنگ کر کے بھی دکھاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
لڑکیاں بھی خوش آمدید
جیرمیلوف کیڈٹ اسکول میں لڑکیوں کو بھی اعلی فوجی بننے کی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ یہ لڑکیاں بھی لڑکوں کی طرح خندقیں کھودتی ہیں اور انہیں یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ اگر وہ کبھی کسی جنگل میں پھنس جائیں یا گم ہو جائیں تو وہاں سے کس طرح سے نکلا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
چھاتہ برداری
یہاں پر صرف تندرست اور ذہین ہی نہیں بلکہ بچوں کا باہمت ہونا بھی ضروری ہے۔ بہت سے والدین عام زندگی میں اپنے بچوں کو جن چیزوں سے روکتے ہیں ملٹری اسکولوں میں وہ روز مرہ کے معمول کا حصہ ہیں۔ پپراشوٹ جمپنگ اس کی ایک مثال ہے۔
تصویر: Reuters/E. Korniyenko
8 تصاویر1 | 8
دوسری جانب روسی حکام کا کہنا ہے کہ شام میں ’شاید پانچ روسی شہری‘ ہلاک ہوئے ہیں تاہم ان کا تعلق روسی مسلح افواج سے نہیں تھا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اگر یہ روسی ہلاکتیں امریکا کی جانب سے شامی فورسز کے خلاف کارروائی کے دوران ہوئی ہیں، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روس شامی تنازعے میں کس شدت کے ساتھ موجود ہے اور یہ خطرات بھی نظر انداز نہیں کیے جا سکتے کہ روس اور امریکا شام میں ایک دوسرے کے براہ راست مدمقابل آ جائیں۔
شام میں یہ تازہ روسی ہلاکتیں سن 2014ء میں یوکرائن کے مشرقی حصے میں شروع ہونے والے تنازعے کے بعد سے سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔ تب سو سے زائد روسی جنگجو مشرقی یوکرائن میں مارے گئے تھے۔ ماسکو حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی رہی ہے کہ اس کے فوجی یا رضاکار یوکرائن میں موجود ہیں اور اس حوالے سے سامنے آنے والے اعداد و شمار کی بھی ماسکو حکومت نے کبھی تصدیق نہیں کی۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے روسی عسکری ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ حالیہ کچھ دنوں میں زخمی ہونے والے روسی جنگجوؤں کو شام سے نکالا گیا اور وہ اب مختلف فوجی ہسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔
ولادیمیر پوٹن کے مختلف چہرے
امریکی جریدے ’فوربز‘ نے اپنی سالانہ درجہ بندی میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو دنیا کی طاقتور ترین شخصیت قرار دیا ہے۔ اس فہرست میں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے نمبر پر ہیں۔ دیکھتے ہیں، پوٹن کی شخصیت کے مختلف پہلو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کے جی بی سے کریملن تک
پوٹن 1975ء میں سابق سوویت یونین کی خفیہ سروس کے جی بی میں شامل ہوئے۔ 1980ء کے عشرے میں اُن کی پہلی غیر ملکی تعیناتی کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں ہوئی۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے بعد پوٹن روس لوٹ گئے اور صدر بورس یلسن کی حکومت کا حصہ بنے۔ یلسن نے جب اُنہیں اپنا جانشین بنانے کا اعلان کیا تو اُن کے لیے ملکی وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Klimentyev
پہلا دورِ صدارت
یلسن کی حکومت میں پوٹن کی تقرری کے وقت زیادہ تر روسی شہری اُن سے ناواقف تھے۔ یہ صورتِ حال اگست 1999ء میں تبدیل ہو گئی جب چیچنیہ کے مسلح افراد نے ہمسایہ روسی علاقے داغستان پر حملہ کیا۔ صدر یلسن نے کے جی بی کے سابق افسر پوٹن کو بھیجا تاکہ وہ چیچنیہ کو پھر سے مرکزی حکومت کے مکمل کنٹرول میں لائیں۔ سالِ نو کے موقع پر یلسن نے غیر متوقع طور پر استعفیٰ دے دیا اور پوٹن کو قائم مقام صدر بنا دیا۔
تصویر: picture alliance/AP Images
میڈیا میں نمایاں کوریج
سوچی میں آئس ہاکی کے ایک نمائشی میچ میں پوٹن کی ٹیم کو چھ کے مقابلے میں اٹھارہ گول سے فتح حاصل ہوئی۔ ان میں سے اکٹھے آٹھ گول صدر پوٹن نے کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Nikolsky
اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغنیں
اپوزیشن کی ایک احتجاجی ریلی کے دوران ایک شخص نے منہ پر ٹیپ چسپاں کر رکھی ہے، جس پر ’پوٹن‘ لکھا ہے۔ 2013ء میں ماسکو حکومت نے سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے نوووستی کے ڈھانچے کی تشکیلِ نو کا اعلان کرتے ہوئے اُس کا کنٹرول ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دیا، جسے مغربی دنیا کا سخت ناقد سمجھا جاتا تھا۔ ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ نے پریس فریڈم کے اعتبار سے 178 ملکوں کی فہرست میں روس کو 148 ویں نمبر پر رکھا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/V.Maximov
پوٹن کی ساکھ، اے مَین آف ایکشن
روس میں پوٹن کی مقبولیت میں اس بات کو ہمیشہ عمل دخل رہا ہے کہ وہ کے جی بی کے ایک سابق جاسوس اور عملی طور پر سرگرم شخص ہیں۔ اُن کی شخصیت کے اس پہلو کو ایسی تصاویر کے ذریعے نمایاں کیا جاتا ہے، جن میں اُنہیں برہنہ چھاتی کے ساتھ یا کسی گھوڑے کی پُشت پر یا پھر جُوڈو کھیلتے دکھایا جاتا ہے۔ روس میں استحکام لانے پر پوٹن کی تعریف کی جاتی ہے لیکن آمرانہ طرزِ حکمرانی پر اُنہیں ہدفِ تنقید بھی بنایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Nikoskyi
دم گھونٹ دینے والی جمہوریت
2007ء کے پارلیمانی انتخابات میں صدر پوٹن کی جماعت ’یونائیٹڈ رَشیا‘ نے ملک گیر کامیابی حاصل کی تھی لیکن ناقدین نے کہا تھا کہ یہ انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی جمہوری۔ صدر پوٹن پر دم گھونٹ دینے والی جمہوریت کا الزام لگانے والوں نے جلوس نکالے تو پولیس نے اُن جلوسوں کو منتشر کر دیا اور درجنوں مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ اس جلوس میں ایک پوسٹر پر لکھا ہے:’’شکریہ، نہیں۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/Y.Kadobnov
پوٹن بطور ایک مہم جُو
سیواستوپول (کریمیا) میں پوٹن بحیرہٴ اسود کے پانیوں میں ایک ریسرچ آبدوز کی کھڑکی میں سے جھانک رہے ہیں۔ اِس مِنی آبدوز میں غوطہ خوری اُن کا محض ایک کرتب تھا۔ انہیں جنگلی شیروں کے ساتھ گھومتے پھرتے یا پھر بقا کے خطرے سے دوچار بگلوں کے ساتھ اُڑتے بھی دکھایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ عوام میں اُن کی بطور ایک ایسے مہم جُو ساکھ کو پختہ کر دیا جائے، جسے جبراً ساتھ ملائے ہوئے علاقے کریمیا پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Novosti/RIA Novosti/Kremlin
7 تصاویر1 | 7
ان مریضوں کا علاج کرنے والے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے دن سے اب تک ان کے ہسپتال میں پچاس سے زائد زخمی منتقل کیے جا چکے ہیں اور یہ تمام زخمی ایسے ہیں، جنہیں شام سے روس پہنچایا گیا۔ اس ڈاکٹر کے مطابق ہسپتال منتقل کیے گئے زخمیوں میں سے تیس فیصد شدید زخمی ہیں۔