شام میں ہلاکتوں کی تعداد 7,500 سے متجاوز، اقوام متحدہ
29 فروری 2012اقوام متحدہ کے سیاسی امور کے انڈر سیکرٹری جنرل لِن پاسکو نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا بین الاقوامی برادری کی جانب سے ’قتل عام کو روکنے میں ناکامی‘ سے شامی حکومت کے حوصلے بڑھ رہے ہیں اور اس کے خیال میں اسے ان کارروائیوں کی کھلی چھٹی مل گئی ہے۔
پاسکو نے کہا کہ صدر بشار الاسد کے مظاہرین پر ہلاکت خیز حملوں میں ہلاکتوں کی درست تعداد کے بارے میں بتانا ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا: ’اس حوالے سے اب مصدقہ اطلاعات ہیں کہ اب ایک دن میں ہلاکتوں کی تعداد اکثر ایک سو سے تجاوز کر جاتی ہے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ہلاک ہونے والے افراد کی کل تعداد یقینی طور طور پر 7,500 سے بڑھ چکی ہے‘۔
شام میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نگاہ رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ گزشتہ گیارہ ماہ کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 7,600 افراد سے بڑھ چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل نے کہا کہ مظاہرے کرنے والے شامی شہروں پر ٹینکوں اور راکٹوں سے گولہ باری سے ’حما شہر میں 1982ء کے قتل عام کی یاد تازہ ہو گئی ہے‘۔ اس وقت موجودہ صدر کے والد حافظ الاسد کی جانب سے مظاہروں کو کچلنے کا حکم دینے کے بعد خیال ہے کہ ہزاروں افراد کو قتل کر دیا گیا۔
اقوام متحدہ میں شام سے متعلق ایک نئی قرارداد پر کام ہو رہا ہے جس میں حکومت سے متاثرہ شہروں میں انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کا مطالبہ کیا جائے گا۔
صدر بشار الاسد کی حکومت کو اس وقت ایران، چین اور روس کی مضبوط حمایت حاصل ہے۔ روس اور چین نے شام میں تشدد کی مذمت کرنے والی دو قراردادوں کو ویٹو کر دیا تھا۔
لاطینی امریکہ کے بائیں بازو کے ملک وینزویلا کی جانب سے بھی شام کو ایندھن کی فراہمی جاری ہے اور اس کے صدر ہوگو شاویز کا کہنا ہے کہ ان کا ملک دمشق حکومت کو تیل کی سپلائی روکنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
ادھر امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے منگل کو امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی کے سامنے کہا کہ شامی صدر بشار الاسد اپنے عوام پر تشدد کے باعث جنگی مجرم کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: شادی خان سیف