شام میں امریکی اتحادیوں کے فضائی حملوں میں درجنوں روسی شہریوں کی ہلاکت کی خبر آئے دو ہفتے گزر چکے ہیں۔ لیکن ان روسی ’کرائے کے قاتلوں‘ کے اہل خانہ اب تک لاشوں کے منتظر ہیں۔
اشتہار
سات فروری کے روز شامی شہر دیر الزور میں امریکی قیادت میں عالمی اتحاد کی فضائی کارروائیوں میں 'واگنر گروپ‘ نامی روسی پیرا ملٹری تنظیم کے کتنے ’کرائے کے قاتل‘ ہلاک ہوئے تھے، اس بارے میں ابھی تک کوئی واضح اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ ایک روسی اخبار کے مطابق ان حملوں میں کم از کم پچاس روسی ہلاک جب کہ ستر سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
اب تک ان حملوں میں ہلاک ہونے والے روسی شہریوں میں سے صرف نو افراد کے نام معلوم ہیں۔ روسی وزارت خارجہ نے ابتدائی طور پر پانچ روسی شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی تاہم بعد ازاں ’کئی درجن‘ روسی اور سوویت یونین کی ریاستوں کے شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی تھی۔
نیٹو اتحادی بمقابلہ روس: طاقت کا توازن کس کے حق میں؟
نیٹو اتحادیوں اور روس کے مابین طاقت کا توازن کیا ہے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے آئی آئی ایس ایس سمیت مختلف ذرائع سے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ تفصیلات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: REUTERS
ایٹمی میزائل
روس کے پاس قریب اٹھارہ سو ایسے میزائل ہیں جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر ایسے 2330 میزائل ہیں جن میں سے دو ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo
فوجیوں کی تعداد
نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر قریب پیتنس لاکھ فوجی ہیں جن میں سے ساڑھے سولہ لاکھ یورپی ممالک کی فوج میں، تین لاکھ بیاسی ہزار ترک اور قریب پونے چودہ لاکھ امریکی فوج کے اہلکار ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی فوج کی تعداد آٹھ لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PAP/T. Waszczuk
ٹینک
روسی ٹینکوں کی تعداد ساڑھے پندرہ ہزار ہے جب کہ نیٹو ممالک کے مجموعی ٹینکوں کی تعداد لگ بھگ بیس ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے ڈھائی ہزار ترک اور چھ ہزار امریکی فوج کے ٹینک بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/F. Kästle
ملٹی راکٹ لانچر
روس کے پاس بیک وقت کئی راکٹ فائر کرنے والے راکٹ لانچروں کی تعداد اڑتیس سو ہے جب کہ نیٹو کے پاس ایسے ہتھیاروں کی تعداد 3150 ہے ان میں سے 811 ترکی کی ملکیت ہیں۔
تصویر: Reuters/Alexei Chernyshev
جنگی ہیلی کاپٹر
روسی جنگی ہیلی کاپٹروں کی تعداد 480 ہے جب کہ نیٹو اتحادیوں کے پاس تیرہ سو سے زائد جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان میں سے قریب ایک ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: REUTERS
بمبار طیارے
نیٹو اتحادیوں کے بمبار طیاروں کی مجموعی تعداد چار ہزار سات سو کے قریب بنتی ہے۔ ان میں سے قریب اٹھائیس سو امریکا، سولہ سو نیٹو کے یورپی ارکان اور دو سو ترکی کے پاس ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی بمبار طیاروں کی تعداد چودہ سو ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
لڑاکا طیارے
روس کے لڑاکا طیاروں کی تعداد ساڑھے سات سو ہے جب کہ نیٹو کے اتحادیوں کے لڑاکا طیاروں کی مجموعی تعداد قریب چار ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے تئیس سو امریکی اور ترکی کے دو سو لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
طیارہ بردار بحری بیڑے
روس کے پاس صرف ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے اس کے مقابلے میں نیٹو اتحادیوں کے پاس ایسے ستائیس بحری بیڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
جنگی بحری جہاز
نیٹو ارکان کے جنگی بحری جہازوں کی مجموعی تعداد 372 ہے جن میں سے پچیس ترک، 71 امریکی، چار کینیڈین جب کہ 164 نیٹو کے یورپی ارکان کی ملکیت ہیں۔ دوسری جانب روس کے عسکری بحری جہازوں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
نیٹو اتحادیوں کی ملکیت آبدوزوں کی مجموعی تعداد ایک سو ساٹھ بنتی ہے جب کہ روس کے پاس ساٹھ آبدوزیں ہیں۔ نیٹو ارکان کی ملکیت آبدوزوں میں امریکا کی 70 اور ترکی کی 12 آبدوزیں ہیں جب کہ نیٹو کے یورپی ارکان کے پاس مجموعی طور پر بہتر آبدوزیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Bager
دفاعی بجٹ
روس اور نیٹو کے دفاعی بجٹ کا موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ روس کا دفاعی بجٹ محض 66 بلین ڈالر ہے جب کہ امریکی دفاعی بجٹ 588 بلین ڈالر ہے۔ نیٹو اتحاد کے مجموعی دفاعی بجٹ کی کل مالیت 876 بلین ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture alliance/chromorange
11 تصاویر1 | 11
روسی ’کرائے کے قاتل‘ شام میں کیا کر رہے تھے؟
روسی حکام کے دعووں کے مطابق واگنر گروپ سے تعلق رکھنے والے یہ روسی شہری شام میں ’رضاکارانہ‘ طور پر گئے تھے اور وہاں مختلف حیثیتوں میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ واگنر گروپ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کو ’کرائے کے قاتل‘ بھی کہا جاتا ہے اور یوکرائن کے ’ڈونباس‘ ریجن میں بھی ان میں سے کئی روسیوں کو تعینات کیا گیا تھا۔
روسی سپیشل فورسز سے ریٹائر ہونے والے افراد کی ایک تنظیم کے سربراہ ولادیمیر یفیموف کا کہنا ہے کہ ’کرائے کے قاتل‘ عام طور پر روسی فوج کے سابق افسران اور سپاہی ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ افراد روسی وزارت دفاع کے ساتھ معاہدے کے بعد شام بھیجے گئے تھے۔
ولادیمیر یفیموف کا کہنا ہے کہ شام بھیجے گئے بیس روسیوں کو ذاتی طور پر جانتے تھے۔ شام جانے سے قبل ان افراد نے اپنے اہلِ خانہ کو زیادہ تفصیل نہیں بتائی تھی کیوں کہ وزارت دفاع کے ساتھ معاہدے میں رازداری کی شرط بھی تھی۔
یفیموف کا کہنا ہے کہ سن 2017 میں بھی بڑی تعداد میں روسی فوج کے سابق اہلکار چھ مہینوں کے لیے شام گئے تھے۔ ان میں سے کچھ زخمی بھی ہوئے لیکن سبھی زندہ واپس لوٹ آئے تھے۔ یفیموف کہتے ہیں کہ یہ افراد ’’شام سے امیر بن کر لوٹے تھے اور انہوں نے روس میں اپنے قرضے بھی چکا دیے تھے۔‘‘
روسی ’کرائے کے قاتلوں‘ کی لاشیں کہاں گئیں؟
’کرائے کے قاتلوں‘ کے اہل خانہ ان کی ہلاکت کی صورت میں وزارت دفاع سے رابطہ نہیں کر سکتے کیوں کہ یہ لوگ باقاعدہ فوج کا حصہ نہیں ہوتے۔ علاوہ ازیں پرائیویٹ کنٹریکٹر کے طور پر کام کرنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ یفیموف کے مطابق زیادہ تر ایسے جنگجو غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے اہل خانہ بھی ان کی ہلاکت پر اس لیے خاموشی اختیار کیے رکھتے ہیں کیوں کہ انہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ نجی کمپنی کہیں انہیں ہرجانہ ادا کرنے سے روک نہ دے۔
ڈی ڈبلیو کی تحقیق کے مطابق اب تک شام میں ہلاک ہونے والے کسی ایک روسی شہری کی لاش بھی اس کے ورثا کے حوالے نہیں کی گئی ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم روسی کارکنوں کو خدشہ ہے کہ ان روسیوں کی لاشیں ’روستوف آن ڈان‘ نامی سرد خانے پہنچائی گئی ہیں جہاں ڈی این اے ٹیسٹ بھی کیے جا سکتے ہیں۔
روس میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی ماؤں کی ایک تنظیم کے سربراہ ویلینٹینا میلنیکوفا کا کہنا ہے کہ بیرون ملک ہلاک ہونے والے روسی شہریوں کے بارے میں وزارت داخلہ اور ان ممالک میں روسی سفارت خانوں سے معلومات ملتی ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ شام میں ہلاک ہونے والے روسیوں کی لاشیں شاید وہاں سے واپس روس لائی ہی نہیں گئیں اور ممکنہ طور پر انہیں شام ہی میں دفن کر دیا گیا ہے۔
شام میں ترک فوجی آپریشن، جرمنی میں کردوں کے احتجاجی مظاہرے
ترکی کی جانب سے شمالی شام میں کرد اکثریتی علاقوں میں کیے جانے والے عسکری آپریشن کے تناظر میں جرمنی میں آباد کرد نسل کے باشندوں کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
کردوں کے مظاہرے
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شام اور عراق کے کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کرد فورسز کے خلاف ترکی کے عسکری آپریشن پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین میں کردوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
عفرین میں ترک فوجی آپریشن
ترک فورسز شام کے کرد اکثریتی علاقے عفرین اور اس کے گرد و نواح میں ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کے قبضے میں ہے، جو ان کرد جنگجوؤں نے امریکی تعاون سے شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔
ایردوآن اور میرکل پر تنقید
مظاہرین جرمنی کی جانب سے ترکی کو فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوآن تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف عسکری آپریشن جاری رکھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen
بون میں بھی مظاہرے
جرمنی میں کرد باشندوں کی جانب سے شہر بون میں اقوام متحدہ کے ایک مرکزی دفتر کے قریب بھی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ مظاہرین ترکی کی جانب سے شامی علاقوں میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف آپریشن کی فوری بندش کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: DW/C. Winter
صدر ایردوآن کا سخت موقف
صدر ایردوآن کا کہنا ہے کہ امریکا کرد فورسز کی امداد بند کرے۔ ترکی امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا گروپ وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ انقرہ کا موقف ہے کہ یہ عسکریت پسند کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ہی کا حصہ ہیں، جو ایک طویل عرصے سے ترکی میں کرد اکثریتی علاقوں کی باقی ماندہ ترکی سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/B. Ozbilici
کرد فورسز کو امریکی امداد کی بندش کا ترک مطالبہ
ترک حکومت نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ کرد ملیشیا گروپوں کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر بند کرے۔ دوسری جانب واشنگٹن حکومت نے ترکی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے باز رہے، جن سے ترک اور شام میں موجود امریکی فورسز کے درمیان کسی ممکنہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔