1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں ہلاک ہونے والی روسیوں کی لاشیں کہاں گئیں؟

شمشیر حیدر Elena Barysheva, Markian Ostapchuk
23 فروری 2018

شام میں امریکی اتحادیوں کے فضائی حملوں میں درجنوں روسی شہریوں کی ہلاکت کی خبر آئے دو ہفتے گزر چکے ہیں۔ لیکن ان روسی ’کرائے کے قاتلوں‘ کے اہل خانہ اب تک لاشوں کے منتظر ہیں۔

Russische Pioniere suchen und klären Minen in Ost-Aleppo, Syrien
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Abdullayev

سات فروری کے روز شامی شہر دیر الزور میں امریکی قیادت میں عالمی اتحاد کی فضائی کارروائیوں میں 'واگنر گروپ‘ نامی روسی پیرا ملٹری تنظیم کے کتنے ’کرائے کے قاتل‘ ہلاک ہوئے تھے، اس بارے میں ابھی تک کوئی واضح اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ ایک روسی اخبار کے مطابق ان حملوں میں کم از کم پچاس روسی ہلاک جب کہ ستر سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

’شام میں فوری جنگ بندی کی ضرورت ہے‘

روس اور ایران شام میں تشدد ختم کرائیں، جرمن چانسلر

اب تک ان حملوں میں ہلاک ہونے والے روسی شہریوں میں سے صرف نو افراد کے نام معلوم ہیں۔ روسی وزارت خارجہ نے ابتدائی طور پر پانچ روسی شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی تاہم بعد ازاں ’کئی درجن‘ روسی اور سوویت یونین کی ریاستوں کے شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی تھی۔

روسی ’کرائے کے قاتل‘ شام میں کیا کر رہے تھے؟

روسی حکام کے دعووں کے مطابق واگنر گروپ سے تعلق رکھنے والے یہ روسی شہری شام میں ’رضاکارانہ‘ طور پر گئے تھے اور وہاں مختلف حیثیتوں میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ واگنر گروپ سے تعلق رکھنے والے ان افراد کو ’کرائے کے قاتل‘ بھی کہا جاتا ہے اور یوکرائن کے ’ڈونباس‘ ریجن میں بھی ان میں سے کئی روسیوں کو تعینات کیا گیا تھا۔

روسی سپیشل فورسز سے ریٹائر ہونے والے افراد کی ایک تنظیم کے سربراہ ولادیمیر یفیموف کا کہنا ہے کہ ’کرائے کے قاتل‘ عام طور پر روسی فوج کے سابق افسران اور سپاہی ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ افراد روسی وزارت دفاع کے ساتھ معاہدے کے بعد شام بھیجے گئے تھے۔

ولادیمیر یفیموف کا کہنا ہے کہ شام بھیجے گئے بیس روسیوں کو ذاتی طور پر جانتے تھے۔ شام جانے سے قبل ان افراد نے اپنے اہلِ خانہ کو زیادہ تفصیل نہیں بتائی تھی کیوں کہ وزارت دفاع کے ساتھ معاہدے میں رازداری کی شرط بھی تھی۔

یفیموف کا کہنا ہے کہ سن 2017 میں بھی بڑی تعداد میں روسی فوج کے سابق اہلکار چھ مہینوں کے لیے شام گئے تھے۔ ان میں سے کچھ زخمی بھی ہوئے لیکن سبھی زندہ واپس لوٹ آئے تھے۔ یفیموف کہتے ہیں کہ یہ افراد ’’شام سے امیر بن کر لوٹے تھے اور انہوں نے روس میں اپنے قرضے بھی چکا دیے  تھے۔‘‘

روسی ’کرائے کے قاتلوں‘ کی لاشیں کہاں گئیں؟

’کرائے کے قاتلوں‘ کے اہل خانہ ان کی ہلاکت کی صورت میں وزارت دفاع سے رابطہ نہیں کر سکتے کیوں کہ یہ لوگ باقاعدہ فوج کا حصہ نہیں ہوتے۔ علاوہ ازیں پرائیویٹ کنٹریکٹر کے طور پر کام کرنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ یفیموف کے مطابق زیادہ تر ایسے جنگجو غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے اہل خانہ بھی ان کی ہلاکت پر اس لیے خاموشی اختیار کیے رکھتے ہیں کیوں کہ انہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ نجی کمپنی کہیں انہیں ہرجانہ ادا کرنے سے روک نہ دے۔

ڈی ڈبلیو کی تحقیق کے مطابق اب تک شام میں ہلاک ہونے والے کسی ایک روسی شہری کی لاش بھی اس کے ورثا کے حوالے نہیں کی گئی ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم روسی کارکنوں کو خدشہ ہے کہ ان روسیوں کی لاشیں ’روستوف آن ڈان‘ نامی سرد خانے پہنچائی گئی ہیں جہاں ڈی این اے ٹیسٹ بھی کیے جا سکتے ہیں۔

روس میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی ماؤں کی ایک تنظیم کے سربراہ ویلینٹینا میلنیکوفا کا کہنا ہے کہ بیرون ملک ہلاک ہونے والے روسی شہریوں کے بارے میں وزارت داخلہ اور ان ممالک میں روسی سفارت خانوں سے معلومات ملتی ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ شام میں ہلاک ہونے والے روسیوں کی لاشیں شاید وہاں سے واپس روس لائی ہی نہیں گئیں اور ممکنہ طور پر انہیں شام ہی میں دفن کر دیا گیا ہے۔

شامی تنازعہ، غیر ملکی طاقتیں کیا چاہتی ہیں؟

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں