شام میں نام نہاد محافظوں کی جانب سے انتقام کے نام پر تشدد
6 نومبر 2025
شام کے آمر بشار الاسد کی معزولی کے ایک سال بعد، شام میں امن کے نام نہاد محافظوں کی جانب سے تشدد کی بڑھتی ہوئی اطلاعات پریشان کن ہیں۔
مثال کے طور پر، اکتوبر میں، حمص صوبے کے عیسائی اکثریتی گاؤں اناز میں سیاہ لباس میں ملبوس حملہ آوروں نے موٹر سائیکل پر سوار دو افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
کچھ مبصرین نے قتل کو فرقہ وارانہ نفرت سے محرک قرار دیا اور شام کی نئی حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا۔ دوسروں نے اسد حکومت کی باقیات کو مورد الزام ٹھہرایا، جو کمیونٹی میں کشیدگی کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔
لیکن بعد میں مزید تفتیش سے پتہ چلا کہ ہلاک ہونے والوں میں سے ایک کا تعلق اسد سے منسلک ملیشیا سے تھا، جو ملک کی 14 سالہ خانہ جنگی کے دوران 700 افراد کی ہلاکت کا ذمہ دار تھا۔
ایک شامی اشاعت عناد بلادی نے اس وقت رپورٹ کیا کہ اناز کے بہت سے نوجوان جنگ میں اسد حکومت کے ساتھ تھے، جب کہ ایک اور قریبی گاؤں، قلات، شام کے حکومت مخالف انقلابیوں کے ساتھ تھا۔ تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ دوہرا قتل ایک ٹارگٹ کلنگ تھی، جو انتقام کارروائی لگتی ہے۔
نام نہاد امن کے محافظوں کی چوکسی میں اضافہ
اس بات کا امکان کم ہے کہ کسی کو بھی جلد ہی یہ پتہ چل جائے کہ اصل میں ہوا کیا تھا۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ شام میں حال ہی میں ہونے والا یہ ایسا واحد واقعہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ آخری ہو گا۔
شام میں ایسے نام نہاد کارکنوں کی جانب سے تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگست کے آخری دو ہفتوں کے دوران، ایک مبصر نے اندازہ لگایا کہ ریکارڈ کی گئی 70 سے زیادہ پرتشدد اموات میں سے 36 فیصد ٹارگٹ کلنگ تھی، یا پھر ایسے افراد کی وجہ سے ہوئیں۔ ان اعداد و شمار میں حال ہی میں 60 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔
یہ ہلاکتیں شام میں فرقہ وارانہ تشدد کے حالیہ بڑے پیمانے پر پھیلنے والے واقعات کی طرح نہیں ہیں، جہاں ایک ہی وقت میں سینکڑوں لوگ مارے گئے ہوں۔ اس میں عام طور پر کسی ایک فرد پر حملہ کیا جاتا ہے۔
اٹلانٹک کونسل کے ایک سینیئر فیلو، گریگوری واٹرس کہتے ہیں، "جب حقیقی ویجلانٹ تشدد کی بات آتی ہے، جسے میں تشدد کہوں گا جس میں حکومت کے ساتھیوں، حکومت کے سپاہیوں یا حکومت میں شامل کسی بھی شخص کو نشانہ بنایا جاتا ہے، تو یہ رجحان بڑھ رہا ہے۔"
گریگوری واٹرس شام میں بڑے پیمانے پر سفر کر چکے ہیں اور اپنی سائٹ، سیریا ریویزیٹڈ پر واقعات کی نگرانی کرتے ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ "یہ ہر ہفتے مختلف ہوتا ہے۔ لیکن یہ یقینی طور پر بدتر ہوتا جا رہا ہے اور عبوری انصاف کی کمی دباؤ میں اضافہ کر رہی ہے۔"
دسمبر 2024 میں اسد حکومت کے خاتمے کے بعد سے، نئی، عبوری حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایسے بدترین لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی جنہوں نے حکومت کے ساتھ کام کیا، جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیں۔
واٹرس کا کہنا ہے کہ شام کے عبوری صدر احمد الشرع نے اس سلسلے میں کمیونٹی رہنماؤں سے ملاقات کی ہے اور لوگوں سے صبر اور تحمل سے کام لینے کو کہا ہے۔
واٹرس کہتے ہیں، "لیکن میں نے لوگوں کو ان میٹنگوں کے بارے میں یہ کہتے ہوئے بھی سنا ہے، کہ 'ہمارے دس لاکھ لوگ شہید ہو گئے، دس لاکھ گھر تباہ کر دیے، لاکھوں بے گھر ہوئے۔ آپ ہم سے کس چیز کے لیے صبر کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں؟ ہمیں کب تک انتظار کرنا چاہیے؟"
شامی حکومت نے شامی فوج میں خدمات انجام دینے والے بہت سے لوگوں کو عام معافی کی پیشکش بھی کی ہے، اور کہا ہے کہ صرف ان افراد کو مجرمانہ سزا کا سامنا کرنا پڑے گا جن کے ہاتھ "شامی خون" سے رنگے ہوں گے۔
واٹرس نے جون میں واشنگٹن انسٹیٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے لیے بریفنگ میں لکھا کہ اب تک، حکومت کی مشتبہ مجرموں کو گرفتار کرنے کی کوششیں "متضاد، مبہم اور ناقص بات چیت پر مبنی رہی ہیں۔"
ان کے مطابق اعلیٰ عہدوں پر رہنے والے یا قتل عام سے منسلک معروف افراد کو جیل میں رکھا جاتا ہے اور ان کی گرفتاریوں کی بڑے پیمانے پر تشہیر بھی کی جاتی ہے، تاہم تمام مشتبہ افراد کے ساتھ ایک جیسا سلوک نہیں کیا جاتا ہے۔
واٹرس بتاتے ہیں، "بہت سے سابق مخبر اور نچلے درجے کے اہلکار سڑکوں پر گھومتے رہتے ہیں۔ مقامی لوگ باقاعدگی سے ایسے مجرموں کی اطلاع سکیورٹی فورسز کو دیتے ہیں، لیکن پھر انہیں اکثر چند دنوں کے بعد چھوڑ دیا جاتا ہے۔"
سوشل میڈیا پر تشدد کے لیے بھڑکانا
کچھ شامی ان لوگوں کو بھی بے نقاب کرنا چاہتے ہیں، جنہیں وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ واٹرس نے عربی زبان کے اس سوشل میڈیا پیج کی طرف اشارہ کیا، جو بہت مشہور ہے کیونکہ یہ پچھلی حکومت سے وابستہ لوگوں کی تصاویر پوسٹ کرتا رہتا ہے۔
واٹرس کہتے ہیں، "وہ تصویریں پوسٹ کرتے ہوئے کہتے ہیں، 'یہ لڑکا حکومت کا سپاہی تھا، اب وہ آزاد ہے، اور اس کا تعلق فلاں گاؤں سے ہے، اس لیے شاید وہ وہاں ہے۔ اس کو کچھ لوگ تشدد کی کال کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔"
ماہرین کا کہنا ہے کہ غلط معلومات اور غلط معلومات کا سیلاب صورتحال کو مزید خراب بنانے کا کام کرتا ہے۔
تحفظ سے متعلق نام نہاد ارکان کی جانب سے تشدد کے زیادہ تر متاثرین کا تعلق سنی اکثریتی برادری سے ہے۔ واٹرس بتاتے ہیں۔ "سنی (حکومت کے) ساتھیوں کو ان کی اپنی برادریوں میں ہی حقیر سمجھا جاتا ہے، اس لیے انہیں نشانہ بنانا آسان ہے۔" لیکن اگر کسی اقلیت کے رکن پر حملہ کیا جاتا ہے، تو اس پر ہمیشہ فرقہ واریت کے الزامات لگائے جاتے ہیں، چاہے متاثرہ شخص بعد میں جنگی جرائم میں ملوث ہی کیوں نہ پایا جائے۔
ایسے تشدد کو روکنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟
فی الحال، شام کی عبوری حکومت بظاہر اسد حکومت سے وابستہ افراد کو نشانہ بنانے کے لیے نام نہاد امن کے محافظوں کے بارے میں زیادہ کچھ کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت کا رویہ ایسا کیوں ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتی یا ناکافی وسائل کی وجہ سے ایسا نہیں کر پار ہی ہے۔
واٹرس حلب میں ایک طویل عرصے سے قائم ایسے چوکس گروہ کی مثال دیتے ہیں جس نے خانہ جنگی کے دوران اسد حکومت کے افسران کو قتل کیا اور ایسا کرنا جاری رکھا ہے۔
وہ کہتے ہیں: "حکومت کے لیے اس گروپ کا پیچھا کرنا ایک بڑی جدوجہد ہے؛ یہ بنیادی طور پر ایک باغی سیل ہے۔ اس وقت، وہ (حلب گروپ) حکومتی افواج کے بجائے سابق حکومت کے حامی لڑکوں پر حملہ کر رہے ہیں۔ لیکن اگر آپ ان میں سے دو یا تین کو گرفتار کر لیں، تو شاید وہ آپ پر حملہ کرنا شروع کر دیں گے۔"
واٹرس کا کہنا ہے کہ اس کے بجائے، حکومتی حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ اسد حکومت کے سابق فوجیوں کو اس سے پہلے گرفتار کر لے کہ ایسے گروپ ان کے پاس پہنچ سکیں۔
واشنگٹن انسٹیٹیوٹ کے سینیئر فیلو آرون زیلن کہتے ہیں کہ ان کے خیال سے مارچ 2025 میں اعلان کردہ عبوری انصاف کے سے متعلق حکومتی کمیشن کے بارے میں مزید عوامی معلومات اس صورتحال کو بہتر کر سکتی ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "میں نے سنا ہے کہ وہ پردے کے پیچھے بہت اچھا کام کر رہے ہیں، لیکن انہیں اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ اس کے بارے میں زیادہ عوامی طور پر بات کرنا اسے نقصان پہنچا سکتا ہے۔" "لیکن مجھے لگتا ہے کہ خاموش رہنے سے اعتماد اور شفافیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے، کیونکہ کسی کو بھی اس ٹائم لائن کا اندازہ نہیں ہے کہ یہ سب کیسے چل رہا ہے۔"
واشنگٹن میں قائم شامی انصاف اور احتسابی مرکز کے ڈائریکٹر محمد العبداللہ کا کہنا ہے کہ ویجلانٹزم میں اضافہ دراصل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ عمل کس قدر خراب ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا، "حکام نے خلاف ورزیوں میں ملوث لوگوں کو حراست میں نہیں لیا اور وہ سڑکوں پر گھوم رہے ہیں۔ لوگ انہیں دیکھتے ہیں، اور وہ سوچتے ہیں، 'آپ نے میرے والد کو حراست میں لیا یا میرے بھائی کو پھانسی دی، آپ نے میرے بیٹے کو مار ڈالا۔' پھر وہ 'اپنے حقوق اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں' کیونکہ ان کے پاس ریاست کے ان افراد کو جوابدہ بنانے کے منصوبے کے بارے میں مزید معلومات نہیں ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "بہت افراتفری کا ماحول ہے، اس سے خوف پیدا ہو رہا ہے، اس کی وجہ سے نقل مکانی ہو رہی ہے اور یہ صورتحال لوگوں کو انصاف کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر رہی ہے۔"
ص ز/ ج ا (کیتھرین شیئر)