1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'شام نے شہریوں پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے'

13 اپریل 2021

کیمیائی ہتھیاروں پر نظر رکھنے والے ادارے کے مطابق شامی فضائیہ نے کلورین سے بھرا ایک بیرل بم باغیوں کے قبضے والے علاقے سراقب میں گرایا تھا۔

Aleppo Anschlag chemische Waffen
تصویر: Reuters

کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں پر نظر رکھنے والے ادارے 'آرگنائزیشن فار دی پروڈکشن آف کیمیکل ویپن' (او پی سی ڈبلیو) نے 12 اپریل پیر کے روز جاری کردہ اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اس بات پر، ''یقین کرنے کی معقول وجوہات ہیں '' کہ شامی فضائیہ کے ایک ہیلی کاپٹر نے فروری 2018 میں شمال مغربی شہر سراقب پر کلورین کا ایک سلنڈر گرایا تھا۔

شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت گزشتہ کئی برسوں سے باغی جنگجوؤں کے ساتھ خونریز معرکہ آرائی میں مصروف ہے تاہم وہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے مسلسل انکار کرتی رہی ہے۔

او پی سی ڈبلیو نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''سن 2018 میں ہونے والے حملے کیسس ایک برس کی تفتیش کے بعد یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ شامی فوج نے ہی اپنے شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ او پی سی ڈبلیو کے شراکت دار آئندہ کی کانفرنس میں اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کریں گے۔''

رپورٹ میں کیا کہا گیا ہے؟

یہ رپورٹ 'آرگنائزیشن فار دی پروڈکشن آف کیمیکل ویپن' کی تفتیشی اور آئیڈینٹیفیکیشن ٹیم' (آئی آئی ٹی) نے ترتیب دی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ گر چہ اس بم سے کوئی شخص ہلاک نہیں ہوا  تاہم اس کے پھٹنے سے ایک بڑے علاقے میں کلورین پھیل گئی تھی جس کے سبب درجنوں افراد کا کیمیائی زہر کی علامات کے لیے علاج کرانا پڑا۔

اس رپورٹ کے مطابق اس سے متاثرہ افراد میں متلی، آنکھوں میں جلن، سانس لینے میں تکلیف، کھانسی اور گھبراہٹ جیسی علامات شامل تھیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شامی فضائیہ کے اعلی دستے ''ٹائیگر فورسز'' سے وابستہ ایک ہیلی کاپٹر نے جس مقام پر بم گرایا گیا تھا، ''اس علاقے میں گیس کے اخراج تک فضا میں وہ پرواز بھی کرتا رہا تھا۔''

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جائے وقوع سے جمع کیے گئے نمونوں میں کلورین کی آلودگی کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی متاثرہ عینی شاہدین کے بیانات اور وہاں کے طبی عملے سے بھی بات چیت کی گئی۔

شام کی حکومت نے بارہا یہ بات دہرائی ہے کہ اگر وہاں کسی بھی طرح کا کیمیائی حملہ ہوا بھی ہوگا تو اسے خود باغیوں نے شامی فوج کو بدنام کرنے کے لیے انجام دیا ہوگا۔

او پی سی ڈبلیو کی تفتیش یہ بھی کہتی ہے کہ اس بات کا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے جو اس طرف اشارہ کرتا ہو کہ اس حملے کے پیچھے بشار الاسد کے مخالفین کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔

کیا شام میں دیگر حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال ہوا ہے؟ 

عالمی سطح پر کلورین گرچہ کوئی ممنوعہ زہریلا مادہ نہیں ہے تاہم سن 1997 میں منظور کیے گئے  ''کیمیکیل ویپن کنونشن'' کے تحت حالات جنگ اور لڑائی کے دوران کسی بھی کیمیائی مواد کا استعمال ممنوع ہے۔ اس کے نفاذ اور نگرانی کی ذمہ داری او پی سی ڈبلیو پر ہے۔ 

گزشتہ برس اپریل میں او پی سی ڈبلیو کی تفتیشی اور آئیڈینٹیفیکیشن ٹیم' (آئی آئی ٹی) نے پہلی بار اس بات کا اعلان کیا تھا کہ شام کی خانہ جنگی کے دوران کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں اس نے اپنی تفتیش شروع کی ہے۔

اس کے بعد ٹیم نے اپنی پہلی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ شامی فضائیہ کے ایک ہیلی کاپٹر نے مارچ سن 217 میں کلورین اور سرین گیس سے بھرا ہوا ایک بم ہما علاقے کے ایک گاؤں پر گرایا تھا۔ سرین ایک بہت ہی زہریلی قسم کی گیس ہے جو جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا تھا، '' شیرات کے فضائی اڈے سے روانہ ہونے والے شامی عرب ایئر فورس نے فضا سے سرین گیس سے بھرے ہوئے ایک ایم 4000 بم کو جنوبی لتیمناہ کے علاقے میں گرایا تھا جس سے تقریباً 60 افراد متاثر ہوئے تھے۔   

ص ز/ ج ا   (روئٹرز، اے ایف پی) 

ادلب کے شہری بدترین حالات کے لیے تیاریوں میں مصروف

01:35

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں