شام: پارلیمانی انتخابات میں اسد کی جماعت حسب توقع کامیاب
22 جولائی 2020
شام کے پارلیمانی انتخابات میں صدر بشار الاسد کی بعث پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے اکثریت حاصل کر لی ہے تاہم جلا وطن اپوزیشن نے ان انتخابات کو ڈرامہ قرار دیتے ہوئے شرمناک بتایا ہے۔
اشتہار
شام کی حکمراں جماعت اور اس کے اتحادیوں نے پارلیمانی انتخابات میں حسب توقع اکثریت حاصل کر لی ہے۔ جنگ زدہ ملک شام میں ان انتخابات کے لیے انہیں علاقوں میں ووٹ ڈالے گئے جہاں حکومت کا کنٹرول ہے۔ جمعرات کو ووٹوں کی گنتی کے بعد نتائج کا اعلان کیا گیا۔ کورونا وائرس کی وبا کے سبب ان انتخابات کو دوبار ملتوی کیا جا چکا تھا۔ اس کے بعد گزشتہ اتوار یعنی 19 جولائی کو انتخابات کروائے گئے تھے۔
بشار الاسد کی بعث پارٹی اور بعض دیگر جماعتوں نے ''قومی اتحاد'' کے پرچم تلے متحدہ طور پر انتخابات میں حصہ لیا تھا جس نے پارلیمان کی 250 سیٹوں میں سے 177 پر کامیابی کا دعوی کیا ہے۔ شام کے انتخابی کمیشن کے سربراہ سمیر زمریق کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ انتخابات میں صرف 33 فیصد افراد نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا جبکہ 2016 میں ووٹنگ کا تناسب 57 فیصد تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی بھی امیدوار نتائج سے مطمئن نہ ہو تو وہ، ''تین دن کے اندر اپنی شکایت درج کروا سکتا ہے۔'' پارلیمانی انتخابات کے لیے سات ہزار سے بھی زیادہ پولنگ مراکز قائم کیے گئے تھے۔ اس بار ان علاقوں میں بھی ووٹنگ ہوئی جہاں خانہ جنگی کے ابتدائی دور میں اپوزیشن کا قبضہ تھا لیکن پھر بعد میں اسد کی حکومت نے ان علاقوں پر بھی اپنا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔
فکر و اطمينان کی کشمکش ميں مبتلا شامی کرد
شام ميں کردوں کے خلاف ترکی کی فوجی کارروائی اور دمشق حکومت کے دستوں کی واپسی نے مقامی کردوں کو ايک عجيب سی کشمکش ميں مبتلا کر ديا ہے۔ شامی فوج کی واپسی مقامی کردوں کے ليے فکر کا باعث ہے۔
تصویر: Karlos Zurutuza
دو لاکھ سے زائد افراد بے گھر
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ترکی کی شام ميں فوجی کارروائی کے نتيجے ميں اب تک دو لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہيں۔ ايسے ميں لاتعداد افراد نے سرحد پار کر کے عراق ميں کرد علاقوں کی طرف جانے کی کوشش کی ليکن صرف انہيں ايسا کرنے ديا گيا، جن کے پاس مقامی رہائش کارڈ يا اجازت نامہ تھا۔
تصویر: Karlos Zurutuza
سرحدی علاقوں ميں مردوں کی اکثريت
شام کے شمال مشرقی حصوں ميں کئی ديہات خالی ہوتے جا رہے ہيں کيونکہ وہاں سے بڑے پيمانے پر نقل مکانی جاری ہے۔ ترک سرحد کے قريب علاقوں سے عورتيں اور بچے، اندرون ملک صوبہ الحسکہ منتقل ہو رہے ہيں۔ نتيجتاً سرحدی علاقوں ميں اکثريتی طور پر مرد بچے ہيں۔ تين بچوں کی والدہ ايک خاتون نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ الحسکہ ميں بھی لوگوں کی کافی تعداد ميں آمد کے سبب حالات مشکل ہوتے جا رہے ہيں۔
تصویر: Karlos Zurutuza
چہل پہل والے علاقے آج ويران
عامودا کے اس بازار ميں ہر وقت گھما گھمی رہا کرتی تھی ليکن آج يہ ويران پڑا ہے۔ يہاں اب اکثر مرد اکھٹے ہوتے ہيں۔ نو اکتوبر کو شروع ہونے والی ترکی کی فوجی کارروائی کے بعد سے بہت سی دکانيں بند ہو چکی ہيں۔ شامی کرنسی کی قدر ميں کمی کے سبب دکاندار اپنی اشياء کوڑيوں کے دام بيچتے ہيں۔ شيلنگ اکثر صبح سے شروع ہوتی ہے۔ جو لوگ اب بھی اس شہر ميں موجود ہيں، وہ رات کو کم ہی باہر نکلتے ہيں۔
تصویر: Karlos Zurutuza
کل کے دشمن، آج کے دوست
ترک سرحد سے متصل شمال مشرقی شامی شہر قامشلی ميں کرد انتظاميہ اور صدر بشار الاسد کے حاميوں کے مابين حالات سن 2011 ميں خانہ جنگی کے آغاز ہی سے کشيدہ ہيں۔ شامی فوج کی ترک سرحد پر تعيناتی کے حوالے سے فريقين کے مابين تازہ ڈيل کے بعد ابھی تک يہ غير واضح ہے کہ علاقے کا حقيقی کنٹرول کس کے پاس ہو گا۔
تصویر: Karlos Zurutuza
دو محاذوں پر لڑائی
کرد فائٹرز ترک فوج اور انقرہ کے حمايت يافتہ جنگجوؤں کے خلاف برسرپيکار تو ہيں ليکن يہ واضح نہيں کہ اسد کی حمايت حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے ہی ملک ميں کس صورتحال سے دوچار ہوں گے۔ کيا اسد حکومت ان کے زير کنٹرول علاقوں پر اپنی مرضی مسلت کرے گی يا کردوں کو آزادی مل سکے گی۔
تصویر: Karlos Zurutuza
امريکا نے غلط وقت پر کردوں کا ساتھ چھوڑا
امريکا کی جانب سے يکطرفہ اور اچانک شام سے اپنی فوج کے انخلاء کے فيصلے سے شامی کرد سمجھتے ہيں کہ ان کے ساتھ اچھا نہيں کيا گيا۔ بہت سے مقامی لوگوں نے اس پر اطمينان کا اظہار کيا کہ ترک فوج کی پيش قدمی روکنے کے ليے ان کی انتظاميہ نے دمشق حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کر ليا ہے۔
تصویر: Karlos Zurutuza
ہلاک شدگان کی تعداد ہزاروں ميں
شامی کردوں کے مطابق دہشت گرد تنظيم ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے خلاف لڑائی ميں ان کے گيارہ ہزار سے زائد جنگجو ہلاک ہوگئے۔ داعش کو اس علاقے ميں شکست ہو چکی ہے ليکن قتل و تشدد کے واقعات اب بھی جاری ہيں۔ ترکی کی چڑھائی کے بعد سے بھی درجنوں شہری اور سينکڑوں فائٹرز ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: Karlos Zurutuza
7 تصاویر1 | 7
یہ انتخابات ایک ایسے وقت کروائے گئے ہیں جب شام کو زبردست عالمی پابندیوں کے سبب اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ حال ہی میں امریکا نے شام پر جو نئی پابندیاں عائد کی ہیں اس سے ملک کی کرنسی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والے ایک ہزار 658 امیدواروں میں سے بیشتر نے ملک کی معیشت کو بحال کرنے اور جنگ سے تباہ حال انفراسٹرکچر کو از سر نو تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
انتخابات نہ تو آزادانہ اور نہ ہی منصفانہ تھے
شام کے جلا وطن اپوزیشن اتحاد نے ان انتخابات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے، شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ جینوا میں امن مذکرات میں شامل اپوزیشن کے ایک رکن یحیی عریدی نے کہا، ''عام فہم زبان میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ انتخابات غیر قانونی ہیں۔ حکومت نے ہی تمام امیدواروں، یہاں تک کہ آزاد امیدواروں کا بھی خود ہی انتخاب کیا تھا اور انہوں نے ہی انہیں منتخب بھی کر لیا۔''
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے بات کرتے ہوئے عریدی نے بتایا، ''شام میں لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی آزادی ہی نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ ایک ڈرامہ تھا اور کچھ بھی نہیں۔''
پیر کے روز امریکا نے بھی ان انتخابات کو ''حکومت کے ماتحت اور غیر منصفانہ قرار دیا تھا۔ امریکی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا، ''اسد کی حکومت نے گزشتہ روز جعلی پارلیمانی انتخابات کا ڈھونگ رچا تھا جس میں آزادانہ اور منصفانہ ووٹنگ نہیں ہوئی۔ اسد اپنے ان حالیہ کرپشن اور جبر کی مثالوں سے شامی عوام اور عالمی برادری کو بیوقوف نہیں بنا سکتے۔''
شام میں کورونا وائرس کی وجہ سے ان انتخابات کو دو بار ٹالا گیا جہاں حکومت کے مطابق اب تک صرف 540 افراد کووڈ 19 سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ تقریباً 30 افراد کی موت ہوچکی ہے۔