شام: پانچ بڑی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز
18 ستمبر 2013اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی ایک ٹیم اپنی رپورٹ میں تصدیق کر چکی ہے کہ شام میں اکیس اگست کو کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تھا تاہم رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہےکہ یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ یہ ہتھیار شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے استعمال کیے گئے تھے یا پھر حکومت کے خلاف بر سر پیکار باغیوں کی طرف سے۔
اب امریکا، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے سفارت کاروں نے مغربی ممالک کی جانب سے تیار کردہ سلامتی کونسل کی اس قرارداد کے مسودے پر بحث شروع کر دی ہے جس کے ذریعے شامی حکومت کو اس بات کا پابند بنایا جانا ہے کہ وہ اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کر دے۔ تاہم روس کا کہنا ہے کہ اسے یقین ہے کہ صدر اسد کی جانب سے کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کیے گئے۔ فرانس کو اس حوالے سے روس سے شدید اختلاف ہے۔
واضح رہے کہ مذکورہ مسودے کو گزشتہ ہفتے کے روز جنیوا میں طے پانے والے روسی امریکی معاہدے کو تقویت دینے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق شامی حکومت کو اپنے کیمیائی ہتھیاروں کی تمام تفصیلات ایک ہفتے کے اندر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے پیش کرنا ہوں گی، اور یہ کہ سن دو ہزار چودہ کے وسط تک اسے یہ تمام ہتھیار تلف بھی کرنا ہوں گے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل میں قرارداد پر رائے شماری کے لیے ابھی وقت کا تعین نہیں ہوا ہے۔ اس سے پہلے کونسل کے تمام ممالک کا قرارداد کے مسودے پر متفق ہونا بھی لازمی ہے۔
شام میں دو برس سے جاری خانہ جنگی میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور بیس لاکھ کے قریب نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ایک ایسا بحران جو شامی صدر بشار الاسد کے خلاف تحریک اور جمہوری اصلاحات کے مطالبے سے شروع ہوا تھا، ایک خونریز خانہ جنگی میں تبدیل ہو چکا ہے۔
سلامتی کونسل میں قرارداد کے مسودے پر اختلافات اب بھی برقرار ہیں۔ روس شامی حکومت کو بری الذمہ قرار دے رہا ہے جب کہ فرانس کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی رپورٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ کیمیائی ہتیھار اسد حکومت نے ہی استعمال کیے تھے۔ امریکی حکومت بھی اکیس اگست کے اس واقعے میں، جس میں مختلف رپورٹوں کے مطابق چودہ سو افراد ہلاک ہوئے تھے، شامی حکومت کی ہی مورد الزام ٹھہراتی ہے۔
فرانس کا کہنا ہے کہ جس تکنیک کے ساتھ اور جس پیمانے پر یہ ہتھیار استعمال ہوئے، وہ صرف ریاستی کارروائی ہی ہو سکتی ہے۔ شامی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ دوسری جانب شامی باغیوں کا کہنا ہے کہ عالمی طاقتوں کو اسد حکومت کے خلاف طاقت کے استعمال پر جلد متفق ہونا چاہیے۔