ایران کے سپریم لیڈر نے شام پر امریکا، فرانس اور برطانیہ کے فضائی حملوں کو ایک جرم قرار دیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے بھی شام کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اشتہار
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے شام پر مغربی طاقتوں کے حملے کو مجرمانہ فعل قرار دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آئے گا۔ خامنہ ای نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکا و فرانس کے صدور اور برطانوی وزیراعظم اس حملے کے مجرم ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ممالک عراق، شام اور افغانستان میں بھی ایسے جرائم سرزد کر چکے ہیں اور سب سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکی قیادت میں کیے جانے والے میزائل حملے حقیقت میں مشرق وسطیٰ میں مزید بربادی و تباہی کا سبب بنے ہیں۔ ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی تسنیم نے حسن روحانی کے بیان کو رپورٹ کیا ہے۔ روحانی کے مطابق امریکا ان حملوں سے خطے میں اپنی موجودگی کو ثابت کرنا چاہتا ہے۔ ایرانی صدر نے یہ بھی کہا کہ امریکی، برطانوی اور فرانسیسی حملوں کے بعد تہران حکومت کی شام کے لیے حمایت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
پاسدارانِ انقلاب
ایران کے پاسداران انقلاب کے ایک اعلیٰ اہلکار اور سیاسی امور کے شعبے کے نائب سربراہ یداللہ جوانی نے مغربی طاقتوں کی کارروائی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ امریکا کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔ جوانی نے مزید کہا کہ ان حملوں کے بعد شام کی صورت حال میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہوں گی اور اس کی ذمہ داری امریکا پر عائد ہوتی ہے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ فضائی حملوں سے خطے میں جو منفی اثرات مرتب ہوں گے، وہ یقینی طور پر حملے کرنے والی قوتوں کے مفاد میں نہیں ہوں گے۔
ایرانی فوج
ایران کی فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل محمد باقری نے شام کے وزیر دفاع علی عبداللہ ایوب کو ایرانی حمایت و تعاون کا یقین دلایا ہے۔ باقری کے مطابق ایران عوام اور فوج شام کی عوام کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ایرانی وزارت خارجہ نے بھی ان حملوں کی مذمت کی تھی۔
پاکستان
اُدھر پاکستان نے بھی شام کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ فریقین کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس بیان میں شام کی جانب سے کیے گئے مشتبہ کیمیکل حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ ازحد ضروری ہے کہ ان حملوں کی شفاف تفتیش فوری طور پرOPCW کی جانب سے کی مکمل کی جائے۔
شام میں حملے کیسے کیے گئے؟
امریکا، برطانیہ اور فرانس نے شام پر دمشق کے نواحی قصبے دوما میں کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال پر فضائی حملے کیے۔ اس پورے معاملے کو تصاویر میں دیکھیے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Ammar
کیمیائی ہتھیاروں کے مراکز پر حملے
امریکا، فرانس اور برطانیہ نے شامی دارالحکومت دمشق اور حمص شہر میں کیمیائی ہتھیاروں کے حکومتی مراکز کو نشانہ بنایا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Ammar
برطانوی لڑاکا طیارے ٹورناڈو
امریکا، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے میزائلوں کے علاوہ لڑاکا طیاروں نے بھی اپنے اہداف کو نشانہ بنایا۔ حکام کے مطابق اس پورے مشن میں شریک تمام طیارے اپنی کارروائیاں انجام دینے کے بعد بہ حفاظت لوٹ آئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Matthews
کیمیائی حملے پر سخت ردعمل
امریکا، فرانس اور برطانیہ نے دوما میں مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا موثر جواب دیا جائے گا تاکہ مستقبل میں ایسے حملے نہ ہوں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Matthews
کیمیائی ہتھیاروں کا تحقیقی مرکز تباہ
یہ تصویر دمشق کے نواح میں قائم اس تحقیقی مرکز کی ہے، جہاں امریکی حکام کے مطابق کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق تحقیق جاری تھی۔ اس عمارت پر کئی میزائل لگے اور یہ عمارت مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
کوئی شخص ہلاک یا زخمی نہیں ہوا
امریکی حکام کے مطابق ان حملوں میں کسی شخص کے ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاعات نہیں ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں کا مقصد شامی حکومت گرانا نہیں بلکہ اس کی کیمیائی ہتھیاروں کی صلاحیت پر وار کرنا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Ammar
سلامتی کونسل منقسم
ان حملوں کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں روس کی جانب سے ان حملوں کی مذمت سے متعلق قرارداد پیش کی گئی، جسے سلامتی کونسل نے مسترد کر دیا۔ شام کے موضوع پر سلامتی کونسل میں پائی جانے والی تقسیم نہایت واضح ہے۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Muzi
تحمل سے کام لینے کی اپیل
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے سلامتی کونسل کے رکن ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اشتعال انگیزی کی بجائے تحمل کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے دوما میں کیمیائی حملے کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ شامی تنازعے کا واحد حل سیاسی مذاکرات سے ممکن ہے۔
تصویر: Reuters/E. Munoz
روس کی برہمی
شام پر امریکی، فرانسیسی اور برطانوی حملوں پر روس نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ’ناقابل‘ قبول قرار دیا۔ اس سے قبل روس نے دھمکی دی تھی کہ اگر شام میں تعینات کوئی روسی فوجی ان حملوں کا نشانہ بنا، تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
تصویر: Reuters/E. Munoz
جرمنی عسکری کارروائی کا حصہ نہیں بنا
جرمن حکومت نے شام میں عسکری کارروائی کا حصہ نہ بننے کا اعلان کیا۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے تاہم کہا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر امریکا، برطانیہ اور فرانس کی یہ کارروائی قابل فہم ہے۔ جرمنی اس سے قبل عراق جنگ میں بھی عسکری طور پر شامل نہیں ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappe
امریکی فورسز تیار ہیں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان حملوں کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مستقبل میں شامی فورسز نے دوبارہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا، تو امریکی فورسز دوبارہ کارروائی کے لیے ہردم تیار ہوں گی۔