شام پر حملے کی حمایت کے لیے کوشاں کیری
8 ستمبر 2013
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے آج فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں فرانسیسی قائدین کے ساتھ ساتھ عرب لیگ کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ بھی ملاقات کی اور بعد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکا فرانس کی اس تجویز پر غور کر سکتا ہے کہ شام کے خلاف کارروائی کے کسی بھی فیصلے سے پہلے ایک بار پھر سلامتی کونسل سے رجوع کیا جائے تاہم یہ کہ ابھی صدر باراک اوباما نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ کیری کا مزید کہنا تھا: ’’ہم سب اس بات پر متفق تھے کہ اسد نے کیمیاوی ہتھیاروں کا شرم ناک استعمال کرتے ہوئے، جس میں ہم سب جانتے ہیں کہ کم از کم 426 بچوں سمیت سینکڑوں افراد مارے گئے ہیں، ایک بین الاقوامی اور عالمگیر سرخ لائن عبور کی ہے۔‘‘
اس سے پہلے کل ہفتے کی شام جان کیری نے شام میں کارروائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے موجودہ صورتِ حال کا موازنہ 1938ء کے اُس میونخ معاہدے سے کیا، جس کے تحت چیکوسلوواکیہ کے ایک حصے کا کنٹرول نازی جرمنی کے پاس چلا گیا تھا۔ اپنے فرانسیسی ہم منصب لاراں فابیوس کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیری نے کہا: ’’ہمارے لیے یہ لمحہ میونخ والا ہی لمحہ ہے، یہ موقع ہے اکٹھے ہونے اور حساب مانگنے کا۔ یہ وقت انسانوں کے قتل عام پر خاموش تماشائی بن کر رہنے کا نہیں ہے۔‘‘
کیری نے یہ بھی کہا کہ اوباما نے ابھی اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے کہ آیا شام کے خلاف کسی کارروائی سے پہلے اگست کے زہریلی گیس کے واقعے کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی تحقیقات کے نتائج جاری ہونے کا انتظار کیا جائے۔
اسی پریس کانفرنس میں شام میں کارروائی کے لیے ’وسیع تر اور بڑھتی ہوئی حمایت‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرانسیسی وزیر خارجہ لاراں فابیوس نے کہا:’’اس وقت گروپ جی ایٹ کے سات اور گروپ جی ٹوئنٹی کے بارہ ممالک شام کے خلاف بھرپور ایکشن کے حق میں ہیں۔‘‘
فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند کا موقف البتہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی تحقیقات کا انتظار کیا جائے، جو اُن کے بقول آئندہ اختتام ہفتہ تک جاری کر دی جائیں گی۔ اولاند نے یہ توقع بھی ظاہر کی کہ امریکی کانگریس میں ’جمعرات اور جمعے‘ کو شام میں کارروائی پر ووٹنگ ہو سکتی ہے۔
پیرس کے بعد کیری کی اگلی منزل لندن ہے، جہاں وہ آج ہی فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ ملاقات کرنے والے ہیں۔ کل پیر کی صبح وہ اپنے برطانوی ہم منصب ولیم ہیگ سے ملیں گے اور پھر واپس واشنگٹن روانہ ہو جائیں گے۔
کل ہفتے کو اُنہوں نے لیتھوینیا کے دارالحکومت ولنیئس میں یورپی وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقات کی تھی، جس کے بعد یورپی یونین کی پالیسی چیف برائے خارجہ امور کیتھرین ایشٹن نے ایک بیان پڑھ کر سنایا، جس میں مشتبہ کیمیاوی حملے کو ’ایک جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف جرم‘ قرار دیا گیا تھا۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ ’اس بات کے مستحکم شواہد موجود ہیں کہ اس حملے کی ذمے دار شامی حکومت ہے‘۔
اُدھر سعودی دارالحکومت ریاض میں خلیجی تعاون کونسل نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ شامی عوام کو ’جبر‘ سے نجات دلانے کے لیے فوری طور پر ’مداخلت‘ کرے۔
آج عراق کے دورے پر گئے ہوئےایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ اقوام متحدہ کے منشور کی رُو سے شام کے خلاف امریکی سرکردگی میں کیا جانے والا کوئی بھی حملہ ’غیر قانونی‘ ہو گا۔ اپنے عراقی ہم منصب کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ظریف نے کہا، ’مہذب ممالک نے پینسٹھ برس پہلے ہی اس امکان کو ختم کر دیا تھا، جب اُنہوں نے اپنے منشور میں طاقت کے استعمال کو ایک غیر قانونی عمل قرار دے دیا تھا‘۔
کل ہفتے کو بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے 9 لاطینی امریکی ملکوں کے بلاک نے بھی، جس میں بولیویا، کیوبا اور وینزویلا بھی شامل ہیں، ایک بیان میں شام میں کسی بھی فوجی مداخلت کی مذمت کی تھی۔
اُدھر شام کے اندر لڑائی بدستور جاری ہے اور تازہ خبروں کے مطابق باغیوں نے دارالحکومت دمشق سےشمال کی جانب واقع تاریخی مسیحی قصبے معلولا پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
اسی دوران آج ’لاس اینجلس ٹائمز‘ نے دو امریکی سرکاری عہدیداروں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اب امریکا شام پر اور بھی زیادہ شدید حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اب تک شام میں پچاس اہداف پر حملوں کا منصوبہ بنایا گیا تھا تاہم اب ملک بھر میں منتشر اسد کے فوجی دستوں پر کاری ضرب لگانے کے لیے وائٹ ہاؤس نے امریکی محکمہ دفاع سے مزید اہداف کی فہرست طلب کر لی ہے۔