1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام پر حملے کی قرار داد کی حمایت کر بھی سکتے ہیں، پوٹن

زبیر بشیر4 ستمبر 2013

جی 20 کانفرنس سے ایک روز قبل اپنے انٹرویو میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا کہنا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ شام میں کیمیائی ہتھیار دمشق حکومت کی جانب سے استعمال کیے گئے ہیں تو روس کا ردعمل سب سے زیادہ فیصلہ کن ہوگا۔

تصویر: picture-alliance/dpa/Itar-Tass/Alexei Nikolsky

اس حوالے سے خبر رساں ادارے اے پی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں پوٹن کا مزید کہنا تھا کہ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اسد فورسز کی جانب سے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے ہیں تو روس، شام میں فوجی کارروائی کی حمایت کرسکتا ہے تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کارروائی کی منظوری اقوام متحدہ کی جانب سے دی جائے۔

دوران انٹرویو پوٹن کی جانب سے ان خدشات کا اظہار بھی کیا گیا کہ 21 اگست کو دمشق کے نواح میں ہونے والا کیمیائی حملہ شاید القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں نے کیا ہو۔

دو روزہ جی ایٹ سربراہ کانفرنس کل سے روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں شروع ہو رہی ہےتصویر: DW/Böhme

اسد حکومت کے لیے روسی حمایت

اپنے اس انٹرویو کے دوران پوٹن انتہائی با اعتماد نظر آرہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ملک نے دمشق کو زمین سے فضا میں مار کرنے والی S-300 میزائل ٹیکنالوجی بھی منتقل کی ہے۔ تاہم اس حوالے سے ابھی کچھ کام ہونا باقی ہے۔ شام ابھی ان میزائلوں کو استعمال نہیں کرسکتا۔ مغربی ممالک کو اس میزائل ٹیکنالوجی کے حوالے سے کئی تحفظات ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کچھ تجزیہ کار صدر پوٹن کے حالیہ انٹرویو کو اس حوالے خوش آئند قرار دے رہے ہیں کہ انہوں نے شام کے مسئلے پر اپنے درینہ مؤقف میں لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔

روسی صدر سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ دمشق کے نواح میں اسد فورسز کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ثابت ہونے پر شام پر حملے کی حمایت کریں گے تو ان کا کہنا تھا، ’’شام پر حملے کی حمایت کر بھی سکتے ہیں‘‘ تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ یورپ اور امریکا کے ان دعوں کو تسلیم نہیں کرتے، جن میں یہ کہا جا رہا ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال دمشق حکومت کی جانب سے کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کہنا بھی ابھی قبل از وقت ہوگا کہ اگر امریکہ نے اقوام متحدہ کی قرارداد کے بغیر فوجی کارروائی کی تو روس اس صورت میں کیا کرے گا۔

امریکی صدر اوبا اور روسی صدر ولادی میر پوٹن: فائل فوٹوتصویر: Reuters

جی ایٹ کانفرنس اور مسئلہ شام

صدر پوٹن کا یہ انٹرویو کل 5 ستمبر سے شروع ہونے والی G20 سربراہ کانفرنس سے محض ایک روز قبل سامنے آیا ہے۔ اس سربراہ کانفرنس کے دوران امریکی صدر باراک اوباما اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی ملاقات بھی متوقع ہے۔ تاہم باضابطہ مذاکرات پہلے ہی منسوخ کئے جاچکے ہیں۔ یہ کانفرنس روسی شہر سینٹ پیٹرز برگ میں پانچ تا چھ ستمبر جاری رہے گی۔ اس دوران وہاں G20 ممالک کے سربراہان مملکت کے ہمراہ وزرائے خارجہ بھی موجود ہوں گے۔ اس کانفرنس کا اہم ترین موضوع شام میں ممکنہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا مسئلہ ہوگا۔

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو شام کے خلاف یکطرفہ کارروائی کرنے پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ سے منظوری کے بغیر شام کے خلاف کوئی بھی فوجی کارروائی غیر قانونی ہوگی۔

شام میں مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال G20 سربراہ کانفرنس کا اہم موضوع رہنے کا امکان ہےتصویر: Reuters/Goran Tomasevic

روسی امریکی تعلقات میں سرد مہری

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تمام تر تلخیوں کے باوجود امریکی صدر اور ان کے روسی ہم منصب کے بیانات کافی حوصلہ افزا ہیں۔ پوٹن نے امریکی صدر کے حوالے سے کہا، ’’اوباما ایک ایسی عملیت پسند شخصیت ہیں جو کم عقل نہیں ہیں۔‘‘ گزشتہ ماہ روسی امریکی دوطرفہ مذاکرات کی منسوخی کے بعد اوباما نے کہا تھا کہ ان کے روسی صدر کے ساتھ مذاکرات ہمیشہ مثبت اور تعمیری رہے ہیں تاہم جب پوٹن سر جھکا کر بیٹھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی کلاس کے بالکل آخر میں بوریت کا شکار کوئی بچہ بیٹھا ہو۔ روس کی جانب سے ایڈورڈ سنوڈن کو عارضی سیاسی پناہ دئے جانے کے بعد امریکا نے جی ایٹ سربراہ کانفرس سے قبل روسی امریکی دوطرفہ مذاکرات منسوخ کر دئے تھے۔

ان دنوں روس اور امریکا کے تعلقات میں انتہائی سرد مہری پائی جا رہی ہے۔ روئٹرز کے مطابق سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس امریکا تعلقات تاریخ کی نچلی ترین سطح پر ہیں۔ اس کی اہم وجہ صدر پوٹن کی شام کی غیر متزلزل حمایت بھی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں