شام کا بحران اور بڑی طاقتوں کے اختلافات
10 ستمبر 2015![](https://static.dw.com/image/18698806_800.webp)
یورپ کی طرف بڑھتا ہوا مایوس شامی مہاجرین کا سیلاب اور ساحل سمندر پر پڑی ایک ننھے بچے کی لاش کے خاکے منظر عام پر آنے کے بعد سے جہاں ایک طرف مہاجرین کی امداد کا بے مثال کام شروع ہو گیا ہے وہاں بڑی طاقتیں شام کی مسئلے کے حل کے لیے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات چیت تک کرنے سے گریز کر رہی ہیں۔
شام کے اندر اور اس بحران کے شکار مہاجرین کی وجہ سے یورپ میں ہنگامی صورتحال پیدا ہونے کے باوجود مغرب، خلیج، روس اور ایران جیسی اہم عالمی طاقتیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف عسکری اور سفارتی حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب شام میں انتہا پسند جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ کی بپاء کی ہوئی جنگ کے بارے میں مغرب میں تشویش میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے، یورپی ملک فرانس اور آسٹریلیا شام میں جہادی گروپ داعش پر بمباری کی مہم میں اضافے پر غور کر رہے ہیں اور شام میں ایک ڈرون حملے میں دو برطانوی جہادیوں کی ہلاکت کے بعد، برطانیہ بھی فضائی حملوں کے بارے میں سوچ رہا ہے۔
مشرق وُسطیٰ کے امور کے ماہرین کا تاہم کہنا ہے کہ آئی ایس یا داعش کو نظر انداز کرنا ایک بڑی غلطی ہوگی اور یہ کہ شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ ٹھوس اور نتیجہ خیز مذاکرات کی تمام تر کوششیں کی جانی چاہئیں۔ شام کا چار سال سے جاری بحران اس کے شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کر چُکا ہے اور اس کا شکار ہو کر دو لاکھ چالیس ہزار افراد لقمہ اجل بن چُکے ہیں۔
انٹر نیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز IISS سے منسلک ایک ماہر ایمیل حُکایم کے بقول، ’’یہ مسئلہ صلاحیت کا نہیں بلکہ حکمت عملی کا ہے‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں،’’ شام میں بمباری کی مہم میں مزید برطانوی، فرانسیسی اور آسٹریلوی طیاروں کی شمولیت آئی ایس کے مزید ٹھکانوں کو تباہ ضرور کر سکتی ہے لیکن یہ اس بنیادی مسئلے کا نہ تو حل ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس سوال کا جواب کہ آخر شام میں اسلامک اسٹیٹ گروپ کیوں پھیل رہا ہے؟‘‘
شام کے تنازعے میں ملوث ممالک، جن میں سے زیادہ تر کے باہمی تعلقات کشیدہ ہیں، اس امر پر متفق ہیں کہ داعش سب سے بڑا دشمن ہے تاہم ان کے درمیان شام کی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کے کردار پر اتفاق نہیں ہو سکتا۔ مشرق وسطیٰ امور کے ماہر ایمیل حُکایم کے بقول، ’’یہ حقیقت ہے کے ان سب کا دشمن ایک ہی ہے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کے یہ اس دشمن کے خلاف کارروائی کا ایک ہی طریقہ کار اپنائیں‘‘۔
ایمیل حُکایم کا کہنا ہے کہ ترکی، امریکا اور خلیجی ممالک کے مابین اب بھی گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یہ امید پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی کہ ایران مغربی دنیا کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے بعد کسی تازہ سفارتی مہم کو آگے بڑھا سکے گا اور اس عمل میں روس بھی شام کے بحران کے حل کے لیے کوششیں کرے گا۔