1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کا بحران: ترکی شام تعلقات میں غیر معمولی کشیدگی

Kishwar Mustafa16 مارچ 2012

روس بشارالاسد حکومت سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے مندوب کوفی عنان کے امن مشن کی حمایت کا اعلان کر دے۔

خانہ جنگی کا گڑھ ادلب جل رہا ہےتصویر: AP

شام میں سیاسی بحران اور حکومت مخالف مظاہروں کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد بھی بدامنی اور شورش میں کمی کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ شامی فوج نے کئی روزہ لڑائی کے بعد شمالی صوبے ادلیب پر ایک بڑا آپریشن کیا ہے جس کے نتیجے میں 45 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ شامی صدر بشار الاسد کے خلاف بغاوت زور پکڑتی جا رہی ہے اور فوج اور باغیوں کے مابین جھڑپوں کے سلسلے اب اپنے دوسرے سال میں داخل ہو گئے ہیں۔ تاہم ہلاکتوں سے عبارت شام کی صورت حال اب مسلسل خانہ جنگی بنتی جا رہی ہے۔

اپوزیشن ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق شامی فوج نے باغیوں کے ساتھ کئی روزہ لڑائی کے بعد شمالی صوبے ادلیب کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ شام کی ’اوبزرویٹری فار ہیومن رائٹس مونیٹرنگ‘ کی رپورٹ کے مطابق ادلیب میں فوج کے تازہ آپریشن میں 45 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں سے 23 کی لاشیں ایسے ملیں کہ ان کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ ان لاشوں میں سے پانچ مفرور فوجیوں کی ہیں۔

دمشق سخت فوجی پہرے میںتصویر: picture-alliance/dpa

ترکی کی طرف شامی پناہ گزینوں کا سیلاب بڑھتا جا رہا ہے اور اس میں اضافے کے خطرات کے سبب انقرہ حکومت نے کہا ہے کہ وہ شام کے اندر ہی ایک بفر زون کی حمایت کرے گی۔

دریں اثناء خلیجی تعاون کی کونسل جی سی سی کے رکن ملکوں نے شامی حکومت کی جانب سے جاری تشدد کے خلاف احتجاج میں دمشق میں اپنے سفارتخانے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اب کویت، عمان، متحدہ عرب امارات اور قطرنے بھی شام میں اپنے سفارتخانے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قبل ازیں خلیجی کونسل کے رکن دو دیگر ممالک بحرین اور سعودی عرب نے گزشتہ بدھ کو ہی شام میں اپنے سفارتخانے بند کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔

اُدھر مغربی دنیا اور عرب ممالک کی طرف سے بشار الاسد حکومت کو غیر قانونی گرداننے کے عمل پر تنقید کرتے ہوئے روس نے اسے غیر تعمیری قرار دیا ہے۔ روسی نائب وزیر خارجہ میخائل بُگڈانوف نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا، ’شامی عوام کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ اُن کے ملک کی باگ ڈور کون سنبھالے۔ ہمارے چند غیر ملکی ساتھیوں کی رائے کسی حل کا سبب نہیں بنے گی‘۔ روسی نائب وزیر خارجہ کا ماننا ہے کہ چند ممالک کی طرف سے بشار الاسد حکومت کو غیر قانونی قرار دیا جانا اور صدر اسد سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنا نہ صرف غیر تعمیری ہے بلکہ اس سے شامی اپوزیشن کو بھی غلط اشارے مل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’وہ یہ سمجھے گی کہ بحران کے حل کے لیے مکالمت کی راہ اختیار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے‘۔

کریک ڈاؤن اپنی جگہ مظاہرے بدستور جاریتصویر: AP

شام میں روس کا ایک بحری اڈہ بھی موجود ہے اور روس دمشق کو اسلحہ فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک بھی ہے۔ ماسکو سلامتی کونسل میں شام کے خلاف دو قراردادوں کو ویٹو کر چکا ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: مقبول ملک

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں