1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام: کیا احمد الشرع ملکی چیلنجوں کو نظر انداز کر رہے ہیں؟

29 ستمبر 2025

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شام کے صدر احمد الشرع کی تقریر کی تعریف کی گئی۔ تاہم، دیرینہ گھریلو مسائل اور آئندہ کے متنازعہ انتخابات کے حوالے سے ملک میں مایوسی کا سایہ بھی ہے۔

احمد الشرع
الشرع نے اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرنے اور ایک ایسی جامع حکومت کی تشکیل کا بھی اعادہ کیا، جو شام کی متنوع نسلی اور مذہبی ساخت کی عکاسی کرتی ہوتصویر: Bashir Daher/IMAGO

شام کے عبوری صدر احمد الشرع کے لیے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس ہفتے کی تقریر ان کے کریئر اور ملک کی پہچان کے لیے ایک سنگ میل ہے۔

الشرع نے نیویارک میں کہا، "شام دنیا کی اقوام میں اپنا صحیح مقام دوبارہ حاصل کر رہا ہے۔"

سن 1967 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ شام کے سربراہ مملکت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کی۔

شام میں بشار الاسد کے خاندان کے 50 سالہ اقتدار کے دوران امریکہ کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار رہے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شام کی نمائندگی سربراہ مملکت کے بجائے وزرائے خارجہ نے کی۔

تاہم گزشتہ دسمبر میں احمد الشرع کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے شام، امریکہ اور بہت سے مغربی ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آ رہے ہیں۔ احمد الشرع کی قیادت میں اسلام پسند ملیشیا حیات تحریر الشام نے دسمبر میں طویل عرصے سے آمر بشار الاسدکو معزول کر دیا اور تقریباً 14 سال سے جاری خانہ جنگی کو بھی ختم کر دیا۔

یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات (ایم ای این اے) پروگرام کے ڈائریکٹر جولین بارنس-ڈیسی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "احمد الشرع واضح بہتری کی ضرورت اور وسیع تر بین الاقوامی رفتار کو ٹھوس فوائد میں تبدیل کرنے کی ضرورت سے بخوبی واقف ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کی حکومت اور ملک کا استحکام براہ راست ترقی سے منسلک ہے۔"

گھریلو چیلنجز برقرار

البتہ مسلسل شام کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی شناخت علاقائی اور گھریلو عدم استحکام کے برعکس ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں، الشرع نے اسرائیل کے متواتر حملوں کی مذمت کی "جو شام اور اس کے عوام کے لیے بین الاقوامی برادری کی حمایت سے متصادم ہیں۔"

الشرع نے اپنے ملک میں مذہبی اور نسلی گروہوں کے درمیان ہلاکت خیز فرقہ وارانہ تشدد کا مسئلہ بھی اٹھایا اور کہا کہ مجرموں کو سزا ملے گی تصویر: Liri Agami/MediaPunch/picture alliance

الشرع نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ شام "بات چیت کے لیے پرعزم ہے" تاہم انہوں نے اس بات کو مسترد کیا کہ شام جلد بازی میں کسی بھی وقت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائے گا۔

دریں اثنا، اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے زیر قیادت مذاکرات نے مکمل سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے بجائے سکیورٹی معاہدے کی تلاش کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے، جس کے تحت شام کی سرزمین سے اسرائیلی افواج کا انخلاء اور سن 1974 کے اس معاہدے کی جانب واپسی شامل ہو سکتی ہے، جس کا مقصد کشیدگی کو مکمل طور ختم کرنا تھا۔

الشرع نے مذہبی اور نسلی گروہوں کے درمیان ہلاکت خیز فرقہ وارانہ تشدد کا مسئلہ بھی اٹھایا، جیسا کہ علوی، عیسائی اور 

دروز اقلیت کے درمیان ان کی حکومت کے آغاز سے ہی ہو رہا ہے۔ ان حملوں میں مبینہ طور پر حکومتی فورسز اور ان سے منسلک ملیشیا بھی شامل تھیں۔

تاہم الشرع نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں کہا، "میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہر اس شخص کو انصاف کے کٹہرے میں لاؤں گا جس کے ہاتھ شامی عوام کے خون سے رنگے ہوں۔" انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ شام نے فیکٹ فائنڈنگ مشن تشکیل دیا ہے اور اقوام متحدہ کو قتل کی تحقیقات کا حق دیا ہے۔

سن 1967 کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ شام کے سربراہ مملکت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خظاب کیا، کیونکہ پہلے وزیر خارجہ کرتے رہے تھے۔تصویر: Michael M. Santiago/AFP/Getty Images

آنے والے انتخابات

الشرع نے اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرنے اور ایک ایسی جامع حکومت کی تشکیل کا بھی اعادہ کیا، جو شام کی متنوع نسلی اور مذہبی ساخت کی عکاسی کرتی ہو۔

تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ شام کے آئندہ پارلیمانی انتخابات میں حقیقی جمہوری نمائندگی کا فقدان ہے۔ انتخابات ستمبر کے وسط سے پانچ اکتوبر تک ہونے ہیں، جس سے سکیورٹی خدشات اور مرکزی کنٹرول کی عدم موجودگی کی وجہ سے تین علاقوں سے دو اقلیتوں کو خارج کر دیا جائے گا۔

تنازعے کا ایک اور نکتہ یہ ہے کہ دمشق میں شام کی نئی پارلیمنٹ میں 121 نشستوں کا انتخاب صدر کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھنے والے انتخابی ادارے کریں گے۔ انتخابات کے لیے 140 نشستیں تھیں۔ تاہم، دو اقلیتوں کے اخراج کی وجہ سے، فی الحال 19 نشستیں نہیں بھری جائیں گی۔ نئی عوامی اسمبلی کی باقی نشستوں پر براہ راست الشرع کی جانب سے ارکان کو مقرر کیا جائے گا۔

بارنس-ڈیسی نے متنبہ کیا کہ "اس بات کا احساس ہے کہ شاید الشرع  اپنے اقتدار میں طاقت کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں، تاہم اس سے زیادہ جامع طرز حکمرانی کے لیے جگہ بند ہو رہی ہے جو اقلیتوں کے لیے جگہ فراہم کرتی ہے۔"

اپنی تقریر میں الشرع نے پابندیوں کو مکمل طور پر ہٹانے کا بھی مطالبہ کیا "تاکہ شامی عوام کو مزید بیڑیوں سے نجات دی جا سکے۔" ان کے خیال میں شام اب ایک ایسے "موقع" کی جگہ پر پہنچ چکا ہے، جسے مزید بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔

اگرچہ 2011 میں شام کی خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد یورپی یونین اور امریکہ کی طرف سے عائد کردہ بہت سی پابندیاں اس سال کے شروع میں اٹھا لی گئی تھیں، تاہم اب بھی بعض سخت پابندیاں برقرار ہیں اور ان کے مستقل خاتمے کا انحصار امریکی کانگریس پر ہے۔

امید کی نئی کرن

برلن میں جرمن سیاسی ہینرک بول فاؤنڈیشن میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ ڈویژن کے سربراہ بینٹے شیلر کہتے ہیں کہ " بدقسمتی سے، شام میں تبدیلی ایسے وقت ہو رہی ہے، جب بین الاقوامی ترقیاتی امداد بحران سے دو چار ہے۔"

تازہ جائزے کے مطابق 56 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ شام صحیح سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، اور اکثریت نے راحت، حفاظت، خوشی اور امید کے جذبات کو بیان کیا تصویر: IMAGO/NurPhoto

وہ مزید کہتے ہیں، "خاص طور پر اب، جب دہائیوں میں پہلی بار ہمیں شام میں واقعی جمہوری تبدیلی کی حمایت کرنے کا موقع ملے گا، جرمنی میں شامی سیاسی بنیادوں کے لیے خصوصی فنڈز ختم ہو رہے ہیں۔ ترقیاتی تعاون کے بجٹ میں اتنی بڑی کٹوتی کی گئی ہے کہ آنے والے سالوں میں ہمارے پاس شام کے لیے شاید ہی کوئی فنڈز دستیاب ہوں گے۔"

شیلر نے خبردار کیا کہ اس کا مطلب شام میں جمہوری تبدیلی کی حمایت کا ایک نادر موقع کھونا ہو سکتا ہے۔

ستمبر کے وسط میں ایک تازہ ترین عرب اوپینین انڈیکس کے جائزے کے مطابق، 61 فیصد شامی ایک جمہوری حکومت کے حامی ہیں۔ تاہم، پورے شام میں ہونے والے اس جامع جائزے کے مصنفین کے لیے، سب سے زیادہ حیران کن نتیجہ جمہوریت نہیں، بلکہ شام میں امید کے ایک نئے احساس کا ابھرنا ہے۔

جائزے کے مطابق، "56 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ شام صحیح سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، اور اکثریت نے راحت، حفاظت، خوشی اور امید کے جذبات کو بیان کیا۔"

پول کے مصنفین کے خیال میں، یہ اعداد و شمار "ملک کے سیاسی مزاج کے لیے لٹمس ٹیسٹ کے طور پر کام کرتے ہیں، جواب دہندگان شام کی ممکنہ تقسیم، بیرونی مداخلت، اور اسرائیلی فضائی حملوں اور شام کی سرزمین میں دراندازی کے بارے میں خدشات کے باوجود پر امید تھے۔"

ص ز/ ج ا (جینیفر ہولیس)

کیا شام اور لبنان اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہے ہیں؟

02:34

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں