1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کی خانہ جنگی پانچویں سال میں داخل

عابد حسین15 مارچ 2015

شامی شہر درعا میں پندرہ مارچ سن 2011 کو صدر بشار الاسد کے خلاف عوامی بغاوت شروع ہوئی تھی جو بتدریج سارے ملک میں پھیل گئی اور پھر ایک خونی مزاحمتی تحریک کی صورت اختیار کر گئی۔ دریں اثناء سارا ملک تباہی کا شکار ہو چکا ہے۔

تصویر: Z. Al-Rifai/AFP/Getty Images

عرب اسپرنگ سے متاثر ہو کر شام کے شہر درعا سے شروع ہونے والا حکومت مخالف احتجاج حکومتی کارروائی کا نشانہ کیا بنا کہ احتجاج اور مظاہروں کی فضا بتدریج سارے ملک میں پھیل گئی۔ پھر یہ احتجاج ایک خونی مزاحمتی تحریک کی صورت اختیار کر گئی۔ گزشتہ چار خونی برسوں کے بعد اب شام حکومتی فوج، انتہا پسند مسلح جہادی گروپوں اور کرد جنگجؤں کا جنگی میدان بن چکا ہے۔ شام مکمل تباہی و بربادی کا شکار ہے۔ لوگوں کو اندرون ملک جہاں بے گھری کا سامنا ہے وہیں لاکھوں شامی ہمسائے ملکوں میں پناہ گزینوں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

شام کے حالات و واقعات پر نگاہ رکھنے والے ادارے سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اب تک اِس جنگ میں دو لاکھ پندرہ ہزار سے زائد انسان مارے جا چکے ہیں۔ گزشتہ چار برسوں میں ہلاکتوں کی کل تعداد کا ایک تہائی حصہ شہریوں کی ہلاکت پر مشتمل ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں دس ہزار سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔ آبزرویٹری نے اپنی خصوصی رپورٹ میں واضح کیا کہ شام اِس وقت بے گھر افراد اور ہلاک شدگان کے لواحقین کا ملک بھ چکا ہے اور اِس ملک کی تباہی و بربادی کو روکنے میں انٹرنیشنل کمیونٹی مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔

حلب کی گلیوں میں مسلح افراد دندناتے پھرتے ہیںتصویر: picture-alliance/AA/Ahmed Muhammed Ali

برطانوی شہر لندن میں قائم سیرین آبزرویٹری برائے ہیومن رائٹس نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ بشار اسد حکومت کی جیلوں میں کم از کم تیرہ ہزار افراد کو ٹارچر کر کے بھی ہلاک کیا گیا ہے۔ ابھی بھی ہزاروں افراد مختلف جیلوں میں مقید ہیں۔ آبزرویٹری کے مطابق شامی تنازعے میں ہلاکتوں کی تعداد بیان شدہ تعداد سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ ہزارہا لاپتہ افراد کی کوئی خبر نہیں ہے۔ سن 2013 میں اسد حکومت نے کیمیاوی ہتھیاروں کو بھی استعمال کیا تھا۔ لاکھوں انسانوں کی ہلاکت اور ملک میں خانہ جنگی جیسے حالات کے باوجود شام کی علوی اقلیت سے تعلق رکھنے والے صدر بشار الاسد بدستور اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔ عالمی برادری اور شامی اپوزیشن مسلسل اُن کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتی چلی آ رہی ہے۔ ایسے خدشات بھی سامنے آئے ہیں کہ اگر اسد حکومت آج کل کے حالات میں ختم ہو جاتی ہے تو امکاناً شام پر مسلمان جہادی غلبہ حاصل کر سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے UNHCR نےکہا ہے کہ شام اِس وقت، موجودہ دور میں انسانی ہمدردی کی ہنگامی امداد کا مستحق علاقہ بن چکا ہے۔ اِس ادارے کے مطابق چالیس لاکھ افراد اپنی جانیں بچانے کے لیے ملک سے راہِ فرار اختیار کر چُکے ہیں۔ شام کے اندر جنگی حالات کا سامنا کرنے والے شہروں، قصبات اور دیہات سے قریب ستر لاکھ لوگ بےگھری کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے نے کہا ہے کہ شام کی ساٹھ فیصد آبادی جہاں غربت کا شکار ہے وہیں سارے ملک کا بنیادی انتظامی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔ ہسپتال اور اسکول اپنی شناخت کھو بیٹھے ہیں۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق شامی کرنسی خانہ جنگی کے بعد کوئی وقعت نہیں رکھتی اور معیشت تیس برس پیچھے چلی گئی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں