شام کی خانہ جنگی کے شکار باشندوں کی امداد کے وعدے
31 مارچ 2015کویت میں بروز منگل 31 مارچ کو منعقد ہونے والی ’ شام ڈونر کانفرنس‘ کے موقع پر یورپی یونین کے ایڈ کمشنر کرسٹوس اسٹیلیا نیڈس نے شام کے لیے امدادی رقم میں اضافے کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ’’ شام کی بحرانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے امداد کی حد سے زیادہ ضرورت پائی جاتی ہے، اس سلسلے میں امداد دینے والی وسیع برادری کو غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ ڈونرز کو زیادہ سے زیادہ امدادی رقوم کے لیے متحرک کیا جا سکے۔‘‘
یورپی یونین کے کمشنر کا مزید کہنا تھا، ’’ یورپی یونین، یورپی کمیشن اور اس یورپی اتحاد کی رکن ریاستوں کی طرف سے یہ فراہم کی جانے والی اس امداد سے شام کے عوام کے مصائب دور کرنے میں مدد مل سکے گی۔‘‘ اس امداد کا مقصد شامی باشندوں کو مستحکم اور طویل المیعاد بحالی کے لیے عطیات فراہم کرنا ہے۔ اس بار کی کانفرنس میں یورپی یونین کی طرف سے امداد کے وعدے میں جس مد میں رقم کا اعلان کیا گیا ہے وہ 2014 ء کی شام کے لیے ڈونر کانفرنس میں کیے جانے والے وعدے کی رقم کا دوگنا ہے۔
قبل ازیں اس نوعیت کی تیسری کانفرنس کے میزبان ملک کویت کے امیر نے 500 ملین کی امدادی رقم کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ شام کا بحران بلاشبہ جدید تاریخ کا بد ترین بحران ہے۔ اس موقع پر اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کانفرنس کے شرکاء پر زور دیا کہ وہ عطیات کی رقم میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کر کہ اسے 8.4 بلین ڈالر تک پہنچائیں جس میں سے 55. بلین مہاجرین کے لیے جبکہ 2.9 بلین اب بھی شام میں پھنسے ہوئے شہریوں کی امداد کے لیے مختص کیے جائیں گے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے اب تک کی امداد کی یہ سب سے بڑی اپیل ہے۔
اُدھر امریکا نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر شام کے لیے 507 ملین ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا ہے۔ منگل کو کویت میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کا آغاز کرتے ہوئے کویت کے امیر شیخ الصباح الاحمد نے کہا، ’’شامی عوام کے مصائب اُن ممالک تک پھیل چُکے ہیں، جنہوں نے شامی مہاجرین کو پناہ دی ہوئی ہے۔ انتہائی خستہ حالی میں پڑوسی ممالک کا رُخ کرنے والے شامی پناہ گزینوں کا بوجھ ان ممالک کے لیے بہت زیادہ ہے۔ یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم شامی مہاجرین کی میزبانی کرنے والے ملکوں کی مدد و حمایت کریں۔‘‘
شام کی خانہ جنگی اب اپنے پانچویں برس میں داخل ہو چُکی ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس دوران اس ملک میں دو لاکھ بیس ہزار افراد ہلاک ہو چُکے ہیں جبکہ بے گھر اور بے سرو سامانی کی حالت میں سر گرداں پھرنے والے 11 ملین افراد عالمی برادری کے لیے ایک چیلنج بن چُکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 4 ملین شامی باشندے پناہ کی تلاش میں قریبی ممالک جیسے کہ لبنان، ترکی، اردن عراق اور مصر کی طرف بڑھنے پر بھی مجبور ہوئے ہیں۔