1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کی صورتحال، عرب لیگ نے مبصر مشن کی مدت میں توسیع کر دی

22 جنوری 2012

عرب لیگ شام میں اپنے مبصر مشن کی مدت میں توسیع پر آمادہ ہو گئی۔ اس سے قبل لیگ کی ایک کمیٹی نے وزرائے خارجہ اجلاس کے لیے بند کمرہ سیشن منعقد کیا، جس میں مبصر مشن کی تیار کردہ رپورٹ کو سنا گیا۔

تصویر: picture-alliance/dpa

عرب لیگ شام میں اپنے مبصر مشن کی مدت میں ایک ماہ کی توسیع پر راضی ہو گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس مشن کی مدت میں توسیع سے متعلق فیصلہ قاہرہ میں عرب لیگ کے اجلاس میں کیا گیا۔ اس سے قبل عرب لیگ کے ایک خصوصی پینل نے مبصر مشن کی جانب سے شام کی صورتحال پر وضح کردہ رپورٹ سننے اور اس کا جائزہ لینے کے لیے ایک بند کمرہ اجلاس کیا۔ اس کے کچھ دیر بعد عرب لیگ وزرائے خارجہ ملاقات ہوئی، جس میں لیگ کے پینل کی تجاویز کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ ہوا کہ آیا عرب مبصر مشن کو شام میں مامور رکھا جائے یا نہیں۔ یہ توقع پہلے ہی ظاہر کی جا رہی تھی کہ عرب لیگ ممکنہ طور پر اس مشن کی مدت میں اضافے کا اعلان کر دے گی۔

عرب لیگ کا یہ مبصر مشن دسمبر سے شام میں ہے، تاہم اس مبصر مشن کی موجودگی میں وہاں تشدد میں کمی کے بجائے بظاہر اضافہ ہی دیکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مشن کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔

اس سے قبل شام کے اپوزیشن گروپوں پر مبنی قومی عبوری کونسل نے عرب لیگ سے درخواست کی تھی کہ شام کے معاملے کو سلامتی کونسل میں بھیج دیا جائے تاکہ بشارالاسد حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہو اور ساتھ ہی دمشق حکومت کے اب تک حامی ممالک روس اور چین پر بھی دباؤ بڑھائے جا سکے کہ وہ اس سلسلے میں عالمی برادری کا ساتھ دیں۔

اس مبصر مشن کے سربراہ جنرل محمد احمد مصطفیٰ الدابیتصویر: picture-alliance/dpa

اس سے قبل اس مبصر مشن کے سوڈانی سربراہ جنرل محمد احمد مصطفیٰ الدابی نے 22 رکنی عرب لیگ سے درخواست کی تھی کی مشن کے اختیارات میں اضافے کی ضرورت ہے نہ کہ اسے سرے سے ختم کر دینے کی۔ دوسری جانب شامی اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ شام میں عرب لیگ کے مبصرین کے بجائے اقوام متحدہ کے مبصرین تعینات کیے جائیں۔

دریں اثناء شام میں سکیورٹی فورسز سے منحرف ہونے والے فوجیوں نے دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقے دوما کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ یہاں مظاہروں میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کی آخری رسومات کے اجتماع پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں چار مظاہرین کی ہلاکت کے بعد گزشتہ روز یہ جھڑپیں شروع ہوئیں۔ ان شدید جھڑپوں کے بعد آخرکار سرکاری فورسز کو پسپا ہونا پڑا۔ مبصرین کے مطابق عموما شام میں بشارالاسد مخالف گروہ سکیورٹی فورسز کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بعد فرار ہو جاتے ہیں تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ اس مسلح جھڑپ کے بعد فرار کے بجائے باغیوں نے پوزیشنیں سنبھال رکھی ہیں۔

سیاسی مبصرین اس واقع کو شام میں لیبیا کی طرز کی خانہ جنگی کی ممکنہ ابتدا سے بھی تعبیر کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شام میں گزشتہ دس ماہ سے جاری حکومت مخالف مظاہروں میں اب تک پانچ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم سلامتی کونسل میں روس کی مخالفت کی وجہ سے اب تک بشار الاسد حکومت کے خلاف کوئی سخت قرارداد منظور نہیں کی جا سکی ہے۔

رپورٹ: عاطف توقیر

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں