شام کی صورتحال پر اسرائیلی تشویش
10 اکتوبر 2013عرب ملک شام ایک مقتل ہے جو مختلف دہشت گرد گروپوں کی غیر معمولی دلچسپی کا سبب بنا ہوا ہے۔ ایک طرف سُنی انتہا پسند شامی صدر بشار الاسد کی فوج کے خلاف نبرد آزما ہیں اور شام کو ایک خدائی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ ان انتہا پسندوں میں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ اور اس کی شاخوں سے تعلق رکھنے والے عناصر بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب شیعہ عسکریت پسند گروپ حزب اللہ ہے، جس کے ساتھ مل کر لبنان کے جنگجو اسد حکومت کو اقتدار میں رکھنے کی تمام تر کوششیں کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی شیعہ اکثریت والے ملک عراق کو اگر شام کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو یہ دونوں ملک ایران اور لبنان کے بیچ ایک اہم جغرافیائی اور سیاسی محور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر شام میں اسد حکومت ختم ہو گئی تو حزب اللہ کی سرپرستی کرنے والے ملک ایران کے ساتھ شام کے رابطے کمزور پڑ جائیں گے۔
مشرق وسطیٰ کے پڑوسی ممالک میں پائی جانے والی صورتحال کے پیش نظر اسرائیل سیاسی تحمل کے مظاہرے کی کوشش کر رہا ہے۔ حالانکہ اسرائیل کی طرف سے متعدد بار شامی اہداف کو فضائی حملوں کا نشانہ بھی بنایا جا چکا ہے تاہم تل ابیب کے سرکاری ذرائع کے مطابق یہ حملے اسرائیل کی قومی سلامتی کے تناظر میں کیے گئے اور ان کا مقصد حزب اللہ کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل روکنا تھا۔
تشدد کے خاتمے کے بعد اسرائیل میں مختلف سیاسی منظر نامہ دیکھنے میں آ سکتا ہے۔ اس کا دار و مدار شام کی جنگ کے خاتمے کے نتائج پر ہو گا۔ اسرائیل کو دمشق کی مختلف سیاسی قوتوں سے نمٹنا ہو گا جس کے لیے اسے مختلف حکمت عملی تیار کرنا ہو گی اور توقع یہی کی جا رہی ہے کہ شام میں ہر سیاسی قوت کی طرف سے اسرائیل کو بڑے چیلنج کا سامنا ہو گا۔
یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے مشرق وسطیٰ سے متعلقہ امور کے ماہر ایلی پودہ کے خیال میں شام کی صورتحال اور وہاں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کو اکثر اسرائیلی باشندے تشویش کا باعث سمجھتے ہیں۔
بد اور بدتر عناصر کے مابین جنگ
تاہم ایلی پودہ کہتے ہیں کہ اسرائیل میں ایک اور سوچ بھی پائی جاتی ہے، وہ یہ کہ اسرائیل کی موجودہ صورتحال خراب نہیں ہے۔ اس سوچ کے حامل امید پسندوں کا ماننا ہے کہ شامی خانہ جنگی سے، جس میں خود شام ہی کے باشندے الجھے ہوئے ہیں، اسرائیل کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ شام کی جنگ ہمیشہ جاری نہیں رہے گی بلکہ کبھی نہ کبھی ختم ہو جائے گی۔ تاہم اُس کے بعد کیا ہو گا، یہ ایک کھلا سوال ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ اسد کا متبادل کون ہو گا۔ پودہ کے بقول، ’’زیادہ تر اسرائیلی باشندے ایک اعتدال پسند شامی حکومت کے وجود میں آنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔‘‘
ادھر Begin-Saddat Center for Strategic Studies کے ماہر سیاسیات Mordeschai Kader کہتے ہیں کہ اسرائیل کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اُس کے نہ تو بشارالاسد سے اچھے تعلقات ہیں اور نہ ہی جہادیوں سے۔ وہ کہتے ہیں، ’’شام میں لڑائی اچھے اور برے عناصر کے بیچ نہیں بلکہ بد اور بدتر عناصر کے مابین ہو رہی ہے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر شام کی جنگ میں جیت اپوزیشن کی ہو گئی تو اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ جہادی اقتدار کے بٹوارے میں اپنے لیے حصے کا مطالبہ کریں گے۔ یہ صورتحال اسرائیل کے لیے اور زیادہ مشکلات کا سبب بن سکتی ہے کیونکہ اسرائیل کو القاعدہ، نصرہ فرنٹ یا اسلامی اسٹیٹ اِن عراق جیسی تنظیموں کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے اسرائیلیوں کے لیے بشار الاسد ہی غنیمت ہیں۔
کمزور حزب اللہ
لبنانی حزب اللہ کی سرگرمیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یروشلم میں اس کے رویے کا ایک مثبت میزانیہ پیش کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ اس گروپ نے 2006ء میں اسرائیل کے خلاف جنگ لڑی تھی۔ لبنان میں گرچہ اب بھی حزب اللہ ایک بہت مضبوط قوت ہے تاہم اسد حکومت کی پشت پناہی کرنے کی وجہ سے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عرب دنیا میں لبنان کی ساکھ کمزور ہو گئی ہے۔