1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کی جنگ یوکرین کے لیے اہم سبق ہو سکتی ہے

3 اپریل 2022

محققین نے’اوپن سورس ریسرچ‘ کو بروئے کارلا کر روسی جنگی جرائم کے ثبوت جمع کرنے میں برسوں لگائے۔ کیا ان تحقیقات کی مدد سے یوکرین میں انصاف دلانے میں مدد مل سکتی ہے؟

UK Eliot Higgins Bellingcat
تصویر: Tolga Akmen/Getty Images/AFP

یوکرین پر روسی حملے شام پر ہونے والے حملوں سے بہت مماثلت رکھتے ہیں۔ دونوں ملکوں میں روسی حملوں کا ہدف شہری بنیادی ڈھانچے، اسکول، کنڈرگارٹن، بازار اور ہسپتال بنے۔ ان میں سے چند واقعات بین الاقوامی قانون کے تحت جنگی جرائم کے زمرے  میں آتے ہیں۔ یوکرین اور شام دونوں ملکوں میں اس طرح کے واقعات کی تفتیش 'اوپن سروس‘ محققین کر رہے ہیں۔ شوقیہ اور پیشہ ور آن لائن تفتیش کاروں کی کمیونٹی واقعات کے وسیع میدان عمل کو جمع کرنے اور اس کی تصدیق کرنے کے لیے آزادانہ طور پر دستیاب معلومات کا استعمال کرتی ہے-

یوکرین میں، اوپن سورس کے تفتیش کار میزائل حملوں کی سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز اکٹھا کر رہے ہیں، تباہ شدہ ٹینکوں کی گنتی کر رہے ہیں اور ہلاک ہونے والے فوجیوں کے نام جمع کر رہے ہیں۔

کچھ تفتیش کار دنیا میں کہیں سے بھی دور بیٹھ کر بھی یہ کام کر سکتے یہاں تک کہ دوسرے ملک میں ہوتے ہوئے بھی۔ اوپن سورس تفتیش کاروں نے شام میں گزشتہ 11 سالوں میں ایسا ہی کیا۔

شام میں پروان چڑھنے والی ریسرچ

شام میں جب آن لائن اوپن سورس ریسرچ کا میدان ابھی ہموار ہی ہو رہا تھا کہ اسی دوران یہ یوکرین میں پختہ ہو چُکا تھا۔ دنیا کی معروف ترین اوپن سورس ریسرچ آرگنائزیشنز میں سے ایک'بیلنگ کیٹ‘ کے بانی ایلیئٹ ہیگنس کہتے ہیں،'' تمام تر واقعات جو شام میں رونما ہوئے اور 2014 ء اور 2017 ء میں جو کچھ یوکرین میں ہوا دراصل اُس سب کی بنیاد ہے جو آج ہو رہا ہے۔‘‘ ہیگنسن مزید کہتے ہیں،'' بنیادی طور پر یہ شام ہی تھا جہاں ہم نے وہ تمام طریقے سیکھے جو اب ہم یوکرین میں استعمال کر رہے۔ یہیں ہم نے ٹیکنیکل کمیونٹی، احتسابی تنظیموں، پالیسی سازوں اور دیگر اداروں کے ساتھ تعلقات استوار کیے تھے۔‘‘

برلن میں قائم ایک غیر منافع بخش ادارہ Mnemonic ’ میمونک‘ دراصل ان کاوشوں میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس نے اپنے کام کا آغاز شامی آرکائیو سے کیا۔ اس آرکائیو کی بنیاد شامی صحافی اور ڈیجیٹل سکیورٹی کے ماہر ہادی الخطیب نے 2014 ء میں اُس وقت رکھی تھی جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے ساتھیوں کو شام میں جمع کردہ مواد، ویڈیوز اور دیگر معلوماتی ذخائر رکھنے کی کوئی محفوظ جگہ میسر نہیں ہے۔ اس کمی کی وجہ سے جنگی جرائم کے دیگر ثبوت بھی ضائع ہو رہے تھے۔ اس کے بعد سے، الخطیب اور ان کی ٹیم نے ایک یمنی آرکائیو اور ایک سوڈانی آرکائیو کی بنیاد رکھی اور  پچھلے مہینے یوکرائن آرکائیو کے لیے وہ تمام مواد اکٹھا کرنے کا کام شروع کر دیا جنہیں بیلنگ کیٹ نے انتہائی اہم سمجھا۔ 

شام کا خونی تنازعہ قانون سے ماورا ہو چکا ہے: انٹرنیشنل ریڈ کراس

تصویر: Serhii Nuzhnenko/AP/picture alliance

الخطیب کہتے ہیں کہ اگر ڈیجیٹل مواد کو عدالت میں استعمال کرنا ہوا تو تنظیم کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ یہ بتا اور دکھا سکے کہ یہ مواد کہاں سے آیا اور یہ ثابت کر سکے کہ اس میں کوئی ہیر پھیر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا،'' شام سے ملنے والے مواد پر کام کرتے ہوئے اس مرحلے تک پہنچنے میں ہمیں برسوں لگ گئے۔ ہم نے یہ سب کچھ وہاں سیکھا۔‘‘

جنگی جرائم سے واقفیت

اوپن سورس محققین نے شام سے کچھ ناخوشگوار اسباق بھی سیکھے ہیں۔ الخطیب نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،''جب ہم نے یوکرین میں کلسٹر گولہ بارود کو استعمال ہوتے دیکھا، تو ہم نے انہیں آسانی سے پہچان لیا۔ ہم انہیں شام سے جانتے تھے، ہم جانتے تھے کہ ان کی آواز کیسی ہے اور کس طرح ایک ہی وقت میں بہت سے چھوٹے چھوٹے دھماکے سنائی دیتے ہیں، ایک بے ترتیب انداز میں۔‘‘ شام میں شہری انفراسٹرکچر، ہسپتالوں اور یہاں تک کہ کھیتوں پر روسی حملوں کی بدولت، الخطیب کے بقول،''میمونک کو تجزیے کا ایک بہتر نمونہ‘‘ مل گیا۔

 انہوں نے وضاحت کی کہ کچھ ایسے اشارے بھی ملے ہیں جو کم و بیش یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مثال کے طور پر، کسی ہسپتال کو غلطی سے روسی میزائل کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ الخطیب نے کہا،'' آپ کو ارادہ ثابت کرنے کے قابل ہونے کی ضرورت ہے اور اب ہمارے پاس اس کے لیے ایک واضح ورک فلو ہے۔ ہماری سمجھ میں آرہا ہے کہ جو 2016 ء  میں حلب میں ہوا تھا وہ اب ماریوپول اور خارکیف میں ہو رہا ہے۔‘‘ ہیومن رائٹس واچ کی ڈیجیٹل تحقیقاتی لیب کے سربراہ سیم ڈبرلی نے مزید کہا کہ اس میں شامل ٹیکنالوجی میں بھی کافی تبدیلی آئی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ موبائل فون پر کیمرے بہتر معیار کے ہیں، اور اسی طرح انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی بھی بہت بہتر ہے۔ عالمی بینک کے مطابق، یوکرین میں، جنگ شروع ہونے سے پہلے 70 فیصد سے زیادہ آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل تھی۔

تصدیق کے بین الاقوامی معیارات طے، مگر جنگی جرم ہوتا کیا ہے؟

ماہرین کہتے ہیں کہ جسے اکثر''اوپن سورس انٹیلی جنس‘‘ کہا جاتا ہے، اسے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے استعمال کیا جاتا رہا ہے یعنی اُس وقت سے جب انٹیلی جنس ایجنسیوں نے غیر ملکی میڈیا آؤٹ لیٹس کی نگرانی شروع کی۔ آج وسیع پیمانے پر آن لائن وسائل کی بدولت، اوپن سورس محققین سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے لے کر فلائٹ یا شپنگ ٹریکرز ، سیٹلائٹ کی تصاویر اور ریڈیو یا فون پر غیر محفوظ گفتگو تک ہر چیز کا استعمال کرتے ہیں۔

کیتھرین شیفر(ک م/ ع ح)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں