1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتشام

’شام کے تمام اضلاع میں ہنگامی صورتحال پیدا ہو چکی ہے‘

15 جون 2023

برسلز میں ساتویں بین الاقوامی شام کانفرنس کے آغاز سے قبل امدادی تنظیموں نے اس ملک میں امدادی اشیا کی قلت سے خبردار کیا ہے۔ 22 ملین شامی باشندوں میں سے نصف سے زیادہ کو خوراک کے عدم تحفظ کا خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔

Syrien | Humanitäre Lage
تصویر: Delil Souleiman/AFP via Getty Images

شورش زدہ ملک شامل میں اب جنگی حالات تو قدرے بہتر ہیں لیکن وہاں کے عوام کا حال ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خراب ہوتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ بارہ سال قبل خانہ جنگی کے آغاز کے بعد پہلی مرتبہ تمام انتظامی اضلاع میں انسانی ہنگامی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق 22 ملین باشندوں میں سے نصف سے زیادہ کو خوراک کے عدم تحفظ کا خطرہ لاحق ہے۔

عرب اسد کو گلے لگا رہے ہیں، کیا اس سے عام شامیوں کو مدد ملے گی؟

انسانی حقوق کی جرمن تنظیم 'ڈیاکونی ڈیزاسٹر ریلیف‘ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جن کے پاس بمشکل ایک دن کا کھانا ہوتا ہے اور انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ آئندہ کل انہیں کھانا نصیب ہو گا یا نہیں؟ 

تصویر: Aaref Watad/AFP/Getty Images

 اسی لیے اس تنظیم کی طرف سے بین الاقوامی برادری سے کافی مالی وسائل فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے کہا ہے کہ وہ شام میں 5.5 ملین میں سے تقریباً 2.5 ملین لوگوں کی امداد پہلے ہی کم کر رہا ہے کیونکہ اس کے پاس کافی رقم دستیاب نہیں ہے۔ ڈبلیو ایف پی کو اس بات پر تشویش ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مزید فنڈنگ نہیں ہو سکتی۔

تصویر: Xinhua/picture alliance

خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے لیے ایسی پہلی ڈونر کانفرنس کا انعقاد سن دو ہزار سترہ میں کیا گیا تھا۔ آج برسلز میں ہونے والی امدادی کانفرنس میں شریک ریاستوں اور تنظیموں کے نمائندے شام کی صورت حال پر تبادلہ خیال کرنے کے ساتھ ساتھ مالی وعدوں کی توثیق اور امداد کو متحرک بنانے کا طریقہ کار طے کریں گے۔

گزشتہ سال شامی کانفرنس میں کل 6.4 بلین یورو امداد کے وعدے کیے گئے تھے لیکن اس ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے ابھی کئی برس لگ سکتے ہیں۔ بارہ سال کی خانہ جنگی کے بعد شام ٹکڑے ٹکڑے اور بڑی حد تک تباہ ہو چکا ہے۔

دوسری جانب اس سال فروری میں آنے والے زلزلے کی تباہ کاریوں نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ اس تباہ کن زلزلے کے بعد ترکی میں تو واضح طور پر امداد پہنچی تھی لیکن بین الاقوامی پابندیوں کے باعث شام کے عوام تک بہت کم امداد پہنچ پائی تھی۔

ا ا / ع ت (ڈی پی اے، روئٹرز)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں